ہفتہ دس دن پہلے یونہی آرام فرما رہے تھے کہ اچانک تیز ہَوائیں چلنے لگیں اور کچھ اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے کی ضرورت محسوس ہوئی. چائے،کافی کا دل خود بہ خود چاہنے لگا، حد تو یہ کہ ڈرائیور کو بھیج کر مونگ پھلیاں بھی منگوا لیں۔…… احساس ہُوا، سردی آگئی ہے۔
کراچی کی سردی کے لئے مشہور ہے کہ مانگے تانگے کی ہوتی ہے ۔ اور اب بھی یہی ہُوا کہ کوئٹہ کی برفباری سے مشروط سردی ہی آئی. سو چائے، کافی بھی بار بار بنانے کی نوبت آرہی ہے، سوپ بھی ذوق و شوق سے پیے جارہے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ پائے بھی بنائے اور نوشِ جاں کیے جارہے ہیں۔۔۔سوئیٹرز بھی دکھاوے کی بجائے ضرورتاً پہنے جارہے ہیں، ہلکے کمفرٹرز کی جگہ کمبل اور لحاف نکالنا یا خریدنا پڑے۔۔۔۔۔غرض کہ سردی بڑے زور و شور اور دھوم دھام سے آئی اور ہم نے بھی سردی منانے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔
لیکن صاحبو!ہم جیسے منانے والوں نے تو سردی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منالی، خوب لطف اندوز ہورہے ہیں ۔۔۔۔اگلی سردی کے لئے منصوبہ بندی تک کر لی گئی لیکن ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اُن لوگوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو سردی کو بہت سختی اور مشکل کے ساتھ جھیل رہے ہیں۔۔۔جن کے وسائل اُن کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ سردی سے لطف اندوز ہوسکیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ سردی درحقیقت بہت سے لوگوں کے لئے امتحان اور آزمائش بن کے بھی آئی ہے۔ کھانے پینے سے لے کر دوا علاج ۔۔۔۔۔۔۔سردیوں کوبرداشت کرنے کے لئے اوڑھنے اور بچھونے کی چیزوں کا انتظام کرلینا ، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔تو اُن لوگوں کا درد رکھنا، موسم کی سختیوں کو جھیلنے میں اُن کی مدد کرنا ہمارا بھی فرض ہے۔
جب ہم اپنی آسائشات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے خرچ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے لیے آسان بھی ہے تو مشکلات میں گِھرے لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہمیں دامے، درمے ،سخنے ان کی مدد کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ یہ ہماری اخلاقی اور شہری ذمّہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔زندگی کا کارواں اسی طرح چلتا ہے۔