تو کیا؟؟

ہماری زندگی عجیب قسم کے نشیب و فراز کا ہمہ وقت شکار رہتی ہے، اور اسی وجہ سے ہماری ذہنی کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ دیکھا جائے تو بحیثیت مسلمان ہمیں تو خوف کا شکار ہی نہیں ہونا چاہیے کہ کل کیا ہوگا؟ مستقبل کی فکر تو وہ کرے جس کا ربّ پر یقین نہیں۔ جب یہ حقیقت روزِ اوّل کی طرح عیاں ہے کہ ”قدر ہماری پیدائش سے پہلے لکھ دی گئی ہے۔“ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا، تو پھر ڈرنا کس بات کا ہے؟قسمت بنانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

قدر جس میں رزق، موت، اولاد، شادی، سب مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس کی لیے خود کو پریشاں حال رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ جو آپ کا ہے وہ ہر دشوار گزار مرحلوں سے گزر کر آپ تک پہنچنا ہے اور پہنچ کر رہے گا۔ جو آپ کی قدر نہیں ہے وہ ہو کر بھی چھن جائے گا۔یوسف علیہ السلام کی قدر میں جو ”گیارہ ستاروں اور ایک سورج کا سجدہ“ تھا، وہ کن مراحل سے ہو کر نصیب ہوا؟ یہ ہم آپ جناب کی ہمت وقعت ہی نہیں کہ اس کا اندازہ لگا سکیں۔ موسیٰ کی قدر سے گزرے بغیر کبھی طُور پر شرفِ ملاقات نصیب نہیں ہو سکتی۔

آج نوکری نہیں تو کیا؟ مالی تنگدستی ہے تو کیا؟ شادی نہیں ہوئی تو کیا؟ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں تو کیا؟ مشکلات و مصائب کا شکار ہیں تو کیا؟ من پسند شخص نہیں ملا تو کیا؟ اس سب کے باوجود اگر آپ زندہ ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بہت عظیم مقاصد کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ زندگی یہاں ختم نہیں ہو جاتی آپ کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ”عالم امر“ میں اظہار کُن کے بعد عالم خلق میں جب آپ کی تخلیق کی گئی تو آپ ان سب مشکلات و مصائب سے گزرنے کا عہد کر کے آئے تھے۔ آپ اس بات کا اقرار کر کے آئے تھے کہ ”ہمارا الہ اللہ ہے۔“ ہم اور آپ بہت عظیم مقاصد کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

دنیا میں آرام و سکون سو فیصد تو کسی کو بھی میسر نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ایک مضبوط سہارا ”عروة الوثقى“ کو تھام لیا جائے، اور پھر جم جائیں اور یقین محکم بنا لیجئے کہ تمام نفع و نقصان کا مالک صرف ربّ ہے۔ دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں اگر وہ نقصان آپ کی قدر میں نہیں ہے، اور اسی طرح کوئی طاقت آپ کو نفع نہیں دے سکتی اگر اللہ نہ چاہے۔ اس پر پختہ یقین بنا لیجئے پھر دیکھیے کہ کیسے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اس دنیا کی زندگی میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی۔ آپ کے لیے کیسے انعام کے طور پر جنت کی بہاریں لکھ دی جاتی ہیں اس کا ادراک ہماری محدود عقل سے ماورا ہے۔

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں