آج جنوری کی چال ہی الگ تھی آنکھوں میں چمک کھنکھتا لہجہ بانکپن اور ہوتی بھی کیوں نہ کل سے زمانے میں اسکا بول بالا اور راج ہونا تھا اسی اتراتی چال کے ساتھ وہ دسمبر کے سرہانے آبیٹھی مگر دسمبر کی بیزاری دیکھ کر جھنجھلا گئی اور بولی تمہیں کہا مسئلہ ہے اداس کیوں بیٹھے ہو ،دسمبر اپنے آنسو چھپاتے ہوئے بولا مجھ سے بات کر کے تم بھی اداس ہو جائو گی چھوڑو اور اپنی تیاری کرو کل تمہیں جانا ہے،نہیں نہیں میں تم سے بات کیے بغیر نہیں جائوں گی جنوری تنک کر بولی، آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے سب جو کہتے ہیں تمہارے بارے میں ٹھیک ہی تو ہے جب دیکھو ایک اداسی سی چھائی رہتی ہے تمہارے اوپر آج تو میں جان کر ہی جائوں گی تمہاری اداسی کی وجہ مجھے اچھا نہیں لگتا جب لوگ تمہیں بُرا بھلا کہتے ہیں میں یہیں بیٹھی ہوں آج مجھے اپنا سمجھ کر اپنے دل کا حال کہہ دو ۔
دسمبر جنوری کے ارادے بھانپ گیا کہ آج جنوری ایسے نہیں جائے گی اور اگر یہ نہ گئی تو۔۔۔۔ ،گہری سانس لیتے ہوئے بولا!
میری اداسی کا سبب تم جان گئیں تو تمہارا یہ جوش اور ولولہ ماند پڑ جائے گا ،ہاں مگر تم بھول جائو گی بالکل ایسے ہی جیسے لوگ بھول جاتے ہیں اپنے رب کو حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ جلد سب کچھ ختم ہو جانے والا ہے تم بھی تو جانتی ہو کہ تمہیں بس اکتٗس دن کیلئے جانا ہے پھر تمہاری واپسی ہے مگر ہر ایک کو انجام سے ذیادہ حال کی فکر ہے اور جیسا کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ “دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا(سورہ جاثیہ آیت 35)۔
بے شک دنیا خوبصورت جگہ ہے اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے سجایا ہے مگر انسان کو یہ بھی بتایا ہے کہ یہ امتحان گاہ ہے جو اس میں کامیاب ہوا وہ فلاح پاگیا مگر انسان ہی ہے جلدباز اور نا شکرا ،یہی وجہ ہے کہ انسان نے جلد ختم ہونے والی دنیا کو ہمیشہ کی زندگی سمجھ رکھا ہے جو میں دیکھ آیا ہوں تم بھی دیکھ لو تو اُداس ہو جاؤ گی
میں کیوں نہ اُداس ہوں دنیا کی یہ روّش دیکھ کر دنیا کی یہ بے رحمی بے ضمیری دیکھ کر کہ ہر طرف خونریزی ہے انسانیت پر ظلم ہے اور انسانیت خاموش تماشائی ہے مسلمان کو اللہ نے ایک جسم کی مانند بتایا ہے اور مسلمان خاموش تماشائی ہیں وہ دل میں درد تو رکھے ہیں لیکن آواز بلند نہیں کرتے میں دیکھ کر جا رہا ہوں شام میں ہونے والے مظالم ،بوسنیا و کشمیر اور فلسطین میں ہونے والا ظلم میری دعا ہے کہ تم جاؤ تو حالات بدل جائیں اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے جو میں دیکھ آیا ہوں اللہ تمہیں نہ دکھائے آمین
یہ کہتے ہوئے دسمبر نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ،دور سے ایک شور سا بلند ہوا پٹاخوں کی آواز سے سارا زمانہ گونج اُٹھا ،جنوری کا دھیان شور کی طرف چلا گیا اور چند ہی لمحوں میں وہ دسمبر کی باتوں کو فراموش کر کے چہچہاتی ہوئی اپنے نئے سفر کی طرف ڈوڑ گئی ۔