عذاب میں مبتلا کراچی

کراچی ان بدنصیب شہروں میں سرفہرست ہے جہاں کئی طرح کے عذاب ایک ساتھ میسر ہیں۔ کراچی کو جہاں دیگر کئی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا وہیں ایک مسئلہ ٹریفک کا بھی ہے ،ٹریفک جام اب معمول کا حصہ بن چکا ہے ، کہیں بھی جانا ہو اس کے لیے گھر سے کم از کم دو گھنٹے پہلے نکلنا اب کراچی والوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ کراچی کی کسی بھی سڑک پر سفر کرنے سے پہلے دوستوں سے مشورہ لیاجاتا ہے کہ فلاں سڑک پر ٹریفک کتنا ہے ؟ فلاں راستہ بہتر رہے گایا متبادل راستہ اختیارکیاجائے؟ اس کے لیے اب باقاعدہ سوشل میڈیا پر شہریوںنے اپنی مدد آپ کے تحت پوسٹ کرنا شروع کردیا ہے کہ فلاں سڑک پر بدترین ٹریفک جام ہے ، اگر آپ کا پلان اس سڑک سے گزرنے کا ہے تو محتاط رہیں، یہاں آپ کے دو چار قیمتی گھنٹے ضائع ہوسکتے ہیں ۔ دفترجانا ہو یا واپس گھر جانا ہو یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب شہری ایک عذاب کے لیے تیار ہو کر نکلتے ہیں۔

گزشتہ ایک ہفتے سے کراچی پریس کلب سے گلشن اقبال سوک سینٹر آنا ہورہا ہے ، صدر ایمپریس مارکیٹ اور پارکنگ پلازہ روڈ کے ٹریفک سے نکل کر جیسے ہی جیل چورنگی تک پہنچتے ہیں تو یہاں سے دس منٹ کا راستہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے پر مشتمل ہوجاتا ہے۔ اس سڑک پرریڈ لائن بس منصوبہ پر کام جاری جوکہ عرصہ دراز سے سست روی کا شکار ہے ، نا وہ مکمل ہوتا ہے نا شہریوں کو عذاب سے چھٹکارہ ملتا ہے۔ گلبائی سے اگرآنے کی کوشش کی جائے تو غنی چورنگی کراس کرتے ہی ناظم آباد انڈر پاس تک بدترین ٹریفک جام منہ چڑارہا ہوتا ہے۔ جان عذاب سے چھڑانے کے لیے شارٹ کٹ لینے کا ارادہ اور بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے اگر آپ بڑا بورڈ کی طرف ٹرن کرلیں تو وہاں کا بے ہنگم ٹریفک ہمارے انتظار میںموجود نظرآتا ہے۔ سونے پر سہاگہ کے ایم سی کی نااہل انتظامیہ کی جانب سے سڑکوں کومرمت کے نام پر اسے ادھیڑکر 6-8ماہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے ، کئی جگہوں پر تو سال سال تک سڑکوں کو مرمت کے نام پرادھیڑکررکھ دیاجاتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی مزید متاثر ہوتی ہے۔ بڑا بورڈ سے سرسید کالج کی طرف جانے والا راستہ عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو راستہ ٹھیک ہوتا ہے اسے بھی مرمت کے نام پر مزیدناکارہ بنادیا جاتاہے ، اب صورت حال یہ ہے کہ دو منٹ کا راستہ بھی تیس منٹ تک پہنچ جاتا ہے۔

کراچی میں سہولیات کم مسائل زیادہ ہیں، گلی محلے تک سیوریج کے پانی میں ڈوبے ہیں، گرائونڈ گاربیچ پوائنٹ بنے ہوئے ہیں، بجلی کے نام پر لوڈشیڈنگ ملتی ہے ، پانی کی جگہ شراب دستیاب ہے ، صحت کے نام پر جعلی اور غیر معیاری اشیاء فروخت ہور ہی ہیں، دنیا چاند سے آگے کا پلان بنا چکی، لیکن کراچی آ ج بھی سیوریج کے مسائل سے نجات حاصل کرنے میں جتا ہوا ہے۔ سماجی تنظیمیں ہوں یا سیاسی جماعتیں سب ایک گٹرکے ڈھکن پر نمود ونمائش کرتی نظرآتی ہیں۔ کارکنان کی حالت یہ ہے کہ وہ سامنے جئے جئے کے نعرے لگاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے برائی کرتے نہیں تھکتے۔

کراچی کو ملنے والی سرکار کی طرف سے تمام سہولیات پر مافیا کا قبضہ ہے ، ہر طرف لوٹ مار کا ایک عجیب سلسلہ چل نکلا ہے جس سے جان چھڑانا اب انتہائی مشکل امر لگتا ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کی صورت حال برسوں سے خراب ہے ، لیکن جن لوگوںکو ٹریفک رواں رکھنے کے لیے سرکار کی طرف سے تنخواہ دی جاتی ہے وہ لوگ سڑکوں پر میلہ لگا کر محض موٹرسائیکل سواروں کے چالان کرتے نظرآتے ہیں، اور مہینے کے آخر میں ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے بڑے فخر سے بتا یاجاتا ہے کہ اس مہینے ہم نے اتنے کروڑ کا چالان کیا، ان کا کام صرف چالان کرنا ہے، ان کا کام ٹریفک رواں رکھنا نہیں رہا۔ جہاں ٹریفک نظرآئے گا وہاں ٹریفک اہلکار کسی کونے کھانچے میں ٹولی کی شکل میں موٹر سائیکل سواروں کو روک کر دو سو پانچ روپے کے چالان کرتے نظرآئیں گے۔ اگر کوئی ہمت کرکے یہ کہہ دے کہ ٹریفک جام ہے اس پر بھی دھیان دیں تو آگے سے لاتیں گھونسوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور ساتھ ہی کھڑی موبائل میں اسے بٹھا کر تھانے منتقل کردیاجاتا ہے جہاں کارسرکار میں مداخلت، سرکاری ملازم پر ہاتھ اٹھانااور دیگر دفعات لگا کر ایک شریف آدمی کو کرمنل بنادیاجاتا ہے۔ جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اب آپ غلط کو غلط کہنے کی جسارت بھی نہیںکرسکتے اور اگر کسی نے ہمت کی تو اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے برباد کردی جائے گی۔

سوشل میڈیا کا اثر کچھ حد تک ہے، عموما سوشل میڈیا پر کام کرنے والے سوشل ورکرز بھی ان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ نہیں، اگر کہیں دور سے ویڈیو بنا لی ، یا کہیں سے چھپ کر کیمرا نکال کر اپنی مہارت دکھا دی تودکھادی ورنہ سامنے تو آپ کیمرا نکالتے ہی پٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جواب میں اگر آپ نے ایک تھپڑ بھی ماردیا تو سمجھ لیں کہ پرچہ مضبوط کٹے گا، کیوں کہ یہاں پیٹی بھائی پیٹی بھائی کا بہت خیال رکھتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز خوش نصیب ضرور ہوتی ہیں مگر اس پر کارروائی کرنے والے محض رسمی کارروائی کرکے اپنے پیٹی بھائیوں کو بخش دیتے ہیں۔ اور ایک پریس ریلیز جاری کرکے بتادیاجاتا ہے فلاں ویڈیو آنے پرفلاں بندے کو معطل کردیا ہے، انکوائری چل رہی ہے ، اب یہ وہ انکوائری ہوتی ہے جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے ۔

کراچی کے مسائل کا حل زیادہ مشکل کانہیں ، اگر مکمل منصوبہ بندی اور پوری ایمانداری سے کیاجائے تو ہر کام وقت پر ہوسکتا ہے ، لیکن اس سے پھر مافیاز کے بینک بیلنس نہیں بھر پائیں گے، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی کام کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے سیدھے راستے کے بجائے ٹیڑھے راستے کا ہی انتخاب کیاجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ کراچی میں مزید ایک نئے عذاب کی صورت میں نکلتا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز ، اے ڈی سیز، مختیار کاراگر اپنا اپنا کام ایمانداری سے کریں تو کوئی شک نہیںکہ آدھے مسائل تو یہ لوگ ہی حل کردیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان افسران کو بھی مفلوج کردیاگیا ہے ، اب یہ افسران عوامی مسائل سے یکسر دور کردیے گئے ہیں اور ان پر پولیو پروگرام کی ذمے داری عائد کردی گئی ہے جس کے باعث ان افسران کا زیادہ وقت پولیو پروگرا م میں ہی صرف ہوتا ہے۔

جگہ جگہ غیرقانونی پارکنگ بھی ٹریفک جام میں ایک بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں، کراچی کا ڈسٹرکٹ سائوتھ اس غیرقانونی پارکنگ کے معاملے پر پہلے نمبر پر ہے جہاں سینکڑوں پارکنگ غیرقانونی ہیں،جو اپنی بدمعاشی کے ساتھ جاری ہیں جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے عام شہریوں کی جیبوں سے بٹور لیے جاتے ہیں۔ ان سے بھی اگر کوئی شہری الجھنے کی کوشش کرے تو اپنا ہی سر پھٹوالیتا ہے ، کیوں کہ یہاں بھی ٹولیوں کی شکل میں لوگ موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی الجھنے والے شہری کو زدکوب کرکے اپنے کام کو دوام بخشتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پورا کراچی ان کے قبضے میں موجود ہے اور شہریوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اگر اپنے گھر کے باہر بھی گاڑی پارک کرتا ہے تو وہاں پر بھی ایک بندہ آکر پچاس سو روپے کی پرچی لگا کر کھڑا ہوجاتا ہے ، جس کے بعد مجبورا انہیں بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔

کراچی کے شہری اس وقت کئی عذابوں کو ایک ساتھ جھیل رہے ہیں، لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ؟ کون ہے جو کراچی کو درست سمت پر گامزن کرے گا؟ کون سا ادارہ اس کی ذمے داری اٹھائے گا،؟یقینا اس کا جواب میئر کراچی کے پاس بھی نہیں ہوگا، وہ بھی اس کی ذمے داری اٹھانے سے قاصر نظرآتے ہیں۔ پھر بھی ہم امید کرتے ہیں کہ کراچی کی انتظامیہ اس پر اب بھرپورتوجہ دے گی تاکہ شہری ان عذابوں سے نجات حاصل کرسکیں۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔