چاچا بشیر کے گھر میں شادی تھی ، وہ ادھر ادھر پریشان بھاگ رہا تھا ، پورے گھر کی بھی اس نے دوڑ لگوا رکھی تھی ، گھر میں رنگ و روغن کا کام بھی ہو رہا تھا ، بجلی والے اپنے کام میں لگے تھے ، لکڑی کا کام الگ ہو رہا تھا ، کھانے پینے کی اشیاء بھی جمع ہو رہی تھی ، شادی میں شرکت کے لئے ترلے منتیں بھی ہو رہی تھی ، روٹھنے منانے کا سلسلہ بھی جاری تھا ، کسی نے اتنی افراتفری دیکھ کر چاچا بشیر سے کہا کہ چاچا جان یہ اتنا بکھیڑا کیوں بکھیر رہے ہو ، خود بھی کام میں لگے ہو ، باقی سب کو بھی کام میں لگا رکھا ہے ، شادی دو افراد کی ہے ، پریشان سب کو کر رکھا ہے ، چاچا بشیر نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولے بیٹا شادی تو بیشک دو افراد کی ہے لیکن یہ سب کچھ بھی سسٹم کا حصہ ہے ، ایک کام کرو تو دوسرا کام خود بخود لازم ہو جاتا ہے ، میں کسی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا بس شادیوں کا سسٹم ایسا بن گیا ہے کہ سب کو تھوڑا بہت پریشان ہونا پڑتا ہے.
چاچا بشیر کے گھر کی طرح ہی ہمارے ملک کے حالات ہیں کہ کوئی کسی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا مگر ایک چیز دوسری چیز سے جڑی ہوئی ہے ، تحریک انصاف کا 24 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان ، پشاور سے ضلع کرم جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر حملہ ، قافلے پر حملے کے جواب میں متعدد مقامات پر حملے ، پارا چنار میں مذہب پسندی کی آڑ میں دہشت گردی اور گنڈا گردی کا ہونا، پھر سابق خاتون اول کا سعودیہ کے خلاف سنگین بیان اور بیان بھی اس حد تک سنگین کہ کہنا “سعودیہ پاکستان میں اسلامی نظام کا مخالف ہے،” یہ سب چیزیں بھی آپس میں جڑی ہوئی ہیں ، اگر ہم پہلے بات کریں kpk کے ضلع کرم میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی تو یاد رکھیں کہ ضلع کرم میں یہ تخریب کاری کا پہلا بڑا واقعہ نہیں ہے ، کئی مہینوں سے وہاں دہشت کا راج ہے ، ملکی آئین کے مطابق صوبے میں امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے kpk کی حکومت خود احتجاج میں لگی ہے اور پورا صوبائی حکومت کا سسٹم اس احتجاج کو کامیاب بنانے میں لگا ہے جس کی وجہ سے kpk کی صوبائی حکومت کا امن و امان پر دھیان کم ہی ہے ، ہمارے یہاں ہماری ایک بدقسمتی یہ ہے کہ فرقہ واریت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی فوری طور پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے ، کچھ لوگ باقاعدہ پوری پلاننگ سے دہشت گردی کی آگ کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرتے ہیں.
حب الوطنی اور سمجھداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ جہاں دہشت گردی کی آگ لگے وہاں آئین و قانون پر عمل کرتے ہوئے اس آگ کو وہیں روکا جائے ، کیونکہ پاکستان ہم سب کا گھر ہے ، اپنے گھر کو جلانا دانشمندی نہیں ہے ، ڈپٹی کمشنر ضلع کرم ، جاوید اللہ محسود کے مطابق 21 نومبر کو 200 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ سرکاری سیکورٹی میں کرم سے پشاور جارہا تھا ، راستے میں دن 1 بجے کے بعد مندوری چار خیل کے مقام پر دو اطراف سے قافلے پر حملہ ہوا ، جس میں 42 لوگ موقع پر جان کی بازی ہار گئے جبکہ لوگ زخمی بھی بڑی تعداد میں ہوئے ، بعض چینل پر یہ خبر بھی رپورٹ ہوئی کہ 21 نومبر کو ہونے والا حملہ 12 اکتوبر 2024 کے حملے کا بدلہ تھا ، 12 اکتوبر کے حملے میں 15 لوگ جان کی بازی ہارے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ، تب سے ہی علاقے میں سخت کشیدگی تھی ، خیر 21 نومبر کے واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر ضلع کرم نے فوری طور پر گرینڈ جرگہ بلانے کا اعلان کیا ہے ، خدا کرے یہ آگ مزید آگے نہ بڑھے اور جرگوں کے زریعے ہی معاملات حل ہو جائیں ۔
ابھی یہ معاملہ پوری طرح حل نہیں ہوا تھا کہ سوشل میڈیا زینبون و فاطمیون کے دہشت گرد افراد نے حملہ کر کے مسافروں کا قتل عام کر دیا اور پھر وقتا فوقتاً یکے بعد دیگرے اس قتل کی روش کو جاری رکھا حتیٰ کہ ایک امام مسجد کے سر کو قلم کر کے دوسرے فریق کو دھمکیاں دینی شروع کر دی۔
اب بشریٰ بی بی کا سعودیہ کے خلاف بیان انتظامی یا سیاسی سطح کا ہوتا تو اس سے نظریں چرانا ممکن تھا لیکن سابق خاتون اول کا بیان یہ ہے کہ سعودیہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ روکنا چاہتا ہے ، ہم سعودیہ کی عقیدت اگر ایک طرف رکھ دیں تو بھی عملی طور پر ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم ہر اسلامی حکم کی خود پاسداری کریں یا نہ کریں لیکن جو لوگ اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں ، انہیں ہم سب بہت پسند کرتے ہیں ، جب ہم گنہگار لوگ یہ سب پسند کرتے ہیں تو سعودیہ والے اسلامی قوانین کو ہمارے لئے پسند کیوں نہیں کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بشری بی بی نے یہ ہوائی فائر چلایا ہے ، حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ ڈز کیوں ماری ہے ، لگتا یوں ہے کہ بشری بی بی شاید عمران خان کی رہائی نہیں چاہتی ، کیوں نہیں چاہتی ، شاید اس لئے نہیں چاہتی کہ مرا ہاتھی سوا لاکھ کا ، بشری بی بی کو شاید یہ لگتا ہے کہ پوری پارٹی عمران خان کے بعد میری ہوگی اور میں اس کی وارث بن جاؤں گی ، ورنہ عقلی طور پر یہ بیان سمجھ آنے والا نہیں ہے ، سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ سیاست میں سب سے اہم ٹائمنگ ہے ، بشری بی بی کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا کہ بیک ڈور چینل سے تحریک انصاف کے مزاکرات کامیابی سے آگے بڑھ رہے تھے ، بدھ کو ہائی کورٹ نے عمران خان کی ضمانت بھی منظور کر لی تھی ، اسی دن کسی نئے مقدمے میں عمران خان کی گرفتاری بھی ڈالی نہیں گئی تھی کہ اگلے دن بشری بی بی نے دھماکے دار بیان داغ دیا ، اس پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بشری بی بی نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ، یعنی اب مزاکرات نئے سرے سے ہوں گے ، پاکستان کی سیاست کو سمجھنے والے یہ بات خوب جانتے ہیں کہ اس وقت کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی ، وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے زیادہ طاقتور ہیں ، زرائع کہتے ہیں کہ عمران خان سے وہ براہ راست مزاکرات کر رہے تھے ، شاید کوئی راستہ نکلتا مگر بشری بی بی کے بیان نے ساری صورتحال تبدیل کر دی ہے ، ریاست پاکستان سعودیہ کو ناراض نہیں کرسکتی اور نہیں کرنا چاہئیے کہ سعودیہ ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے والا دوست ہے ، 1971 میں جب پاکستان دو لخت ہوا تب بھی سعودیہ کا انتخاب پاکستان تھا ، جب تک پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ ملک تسلیم نہیں کیا تب تک سعودیہ نے بھی بنگلہ دیش کو الگ ملک تسلیم نہیں کیا ، اگر بشری بی بی کی سیاست اور سعودیہ کی دوستی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو بلاشبہ پاکستان سعودیہ کی لازوال دوستی کا ہی انتخاب کرے گا۔
24 نومبر کے احتجاج کی کال کی وجہ سے اس وقت بلاشبہ ملک میں چاروں طرف اسی احتجاج کی گونج ہے اور لوگ مختلف علاقوں سے قافلوں کی شکل میں جوق در جوق اسلام آباد D چوک میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی روک تھام کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں مثلاً موٹر وے کی بندش پھر جی ٹی روڈ پر مین مین پوائنٹ پر کینٹینرز وغیرہ اور حکومت کی طرف سے ہائی الرٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے لیکن یہ بھی خوب جان لیں کہ یہ احتجاج نتیجہ خیز نہیں ہوگا ، البتہ پانچ، چھے دن انٹرنیٹ بالخصوص اور ملکی معیشت کا پہیہ بالعموم جام ہے ، لاہور، راولپنڈی ڈویژن اور اسلام آباد کے شہری اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ، کراچی اور کوئٹہ میں بھی ماحول گرم ہے، kpk کی تو پوری حکومت اس کام میں لگی ہے اور kpk کی حکومت کا اکثر بجٹ بھی ان دھرنوں کی نظر ہو گیا ہے۔اس لیے ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا مشورہ ہے کہ ان دنوں میں غیر ضروری سفر بالکل نہ کریں ، سفر ضروری ہو تو احتیاط بہت زیادہ کریں۔ اس وقت ملکی حالات غیر یقینی کا شکار ہیں ، آپ کی جان بھی بہت قیمتی ہے ، ان حالات میں اپنا بہت خیال رکھیں؛ کیونکہ کوئی بھی کسی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا ۔اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے۔