اسرائیل کی جانب سے فلسطین پرگزشتہ برس 7اکتوبر کو مسلط کی جانے والی جنگ میںاب تک 44ہزارسے زائد فلسطینی شہید اورایک لاکھ چار ہزارسے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ عرب میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی شمالی غزہ میں بیت لاہیا میںپانچ منزلہ رہائشی عمارت پرفضائی حملہ کے نتیجے میں 34 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ شہدا میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
فلسطینی سول ڈیفنس کے مطابق بیت لاہیا کے علاوہ وسطی غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے میں 15شہری شہید ہوئے جبکہ رفح میں اسرائیلی ڈرون حملے میں بھی 5شہری شہید ہوئے۔فلسطینی وزارت صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی فورسزنے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں فلسطینی خاندانوں کے خلاف تین بار قتل عام کیا جس کے نتیجہ میں 50 سے زائد فلسطینی شہری شہید اور 110 زخمی ہوئے۔ وزارت نے نشاندہی کی کہ ہزاروں متاثرین ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر بکھرے ہوئے ہیں لیکن قابض اسرائیلی فورسز ایمبولینس اور شہری دفاع کے عملے کو ان تک پہنچنے سے روک رہا ہے۔ جبکہ شمالی غزہ میں اسرائیل فورسز کی زمینی کارروائیوں میں گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار افراد کو بے گھر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا جنگ سے تباہ فلسطین کی صورت حال پر کہنا ہے کہ جبالیہ، بیت لاہیہ اور بیت حنون کے قصبوں میں 75ہزار افراد پانی اور خوراک کی کم ہوتی ہوئی فراہمی کے باعث محصور ہیں۔ اس ہفتے ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 1.9 ملین افراد غزہ کی آبادی کا 90% پچھلے ایک سال کے دوران اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیںاور 79% علاقہ اسرائیل کے جاری کردہ انخلاء کے احکامات کے تحت ہے۔اس ساری صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح برباد کر دینے کے ساتھ ساتھ مجبور فلسطینیوں سے خالی بھی کروانا چاہتی ہے۔جبکہ دوسری طرف اسرائیل، غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے ساتھ ساتھ لبنان میں بھی کاروائیاں کررہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ٰــ56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں۔پناہ گزین تکالیف سے بھرپور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دنیا بھر کے کئی ممالک امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑاور انکی غزہ میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی مخالفت کرچکے ہیںجبکہ دنیا کے طاقتورممالک صرف اسرائیل مخالف بیان بازی تک محدود ہیں اور اسرائیل کی جارحیت ہے کہ ُرکتی نظر نہیں آرہی۔ایران، شام اور یمن کی حوثی حکومت کھل کر فلسطینی مزاحمت کاروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے اسرائیل نے ایران ،لبنان کے خلاف بھی ایک طرح جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کیا گیا، لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا گیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کی سربراہی انکی بیٹی سنواز کے سپرد ہوئی لیکن اسرائیل نے انہیں بھی شہید کر دیا ۔ ایران کی کئی اہم شخصیات کو بھی شہید کیا گیا۔ ان واقعات نے مشرق وسطی ہی نہیں دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی اپنی انتہا کو چھورہی ہے اور اب ایران بھی مسلسل اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہا ہے۔ یمن پر امریکہ اور اسرائیل دونوں بمباری کررہے ہیں، اسرائیل شام اور لبنان میں مسلسل کار روائیاں کر رہا ہے۔
اس وقت اسرائیلی جارحیت کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے اہل فلسطین اپنے ہی ملک میں صہیونیوںکے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک برسوں سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔ امریکہ نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے، لیکن آج تک ان قرار دادوں پرذرہ برابر عمل نہیں ہو سکا۔ بین الاقوامی امور کے ماہر ین اور تجزیہ کار اس ساری صور تحال کو کسی گریٹر تھیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیںتب ہی حماس کے حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر نے کیلئے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ کا دائرہ کار بڑھاتا جارہا ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صور تحال پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی استعماری طاقتیں اپنار سوخ کھوتی جارہی ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کے عوام پر جو ظلم و ستم جاری رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہو گا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل کھیل رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیر کر نا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر ان لوگوں سے خالی کرانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی۔ ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچایا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائید کی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اور دیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانانام نہاد انسانیت کے ٹھیکے دار طاقتوں کے لیے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آواز اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب کر رہ گئی ہے اگر چہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے نام نہاد مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے کوشاں نظر آتے ہیںلیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا باعث بن رہے ہوں انہیں حل کرنے کیلئے عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اپنا قردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک عالمی جنگ کے ہر روز بڑھتے ہوئے خطرے کے سدباب کے لیے بلاتاخیرتمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے اور اسرائیل سے جنگ بند ی کرانے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہونگے۔اگر عالمی برادری ایسا کرنے میں مزید تاخیر سے کام لے گی تو وہ دن دور نہیں جب فلسطین سے شروع ہونے والی جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی اور عالمی امن تباہ ہوجائے گا۔