سوچ بچار کے بعد فیصلہ

سنو کل کی کیا تیاری ہے تم دونوں کی”۔ثانیہ نے کلاس سے نکلتے ہوئے پوچھا۔”تمہیں پتا تو ہے میرے گھر کے ماحول کا۔عبایا ہی پہن کے آؤنگی”۔نمرہ نے منہ بناتے ہوئے بتایا۔تنزیلہ جو گہری سوچوں میں گم ان کے ساتھ خاموشی سے چل رہی تھی۔”میڈم آپ کیا پہنیں گی”۔نمرہ نے تنزیلہ کو ذرا تیز آواز میں مخاطب کیا۔”میں نے ابھی سوچا نہیں” تنزیلہ سوچوں میں گم بولی۔ اس سے پہلے تنزیلہ مزید کچھ کہتی۔ ثانیہ نے اپنے موبائل میں ڈیزائنر سوٹ کی ایک تصویر ان دونوں کے آگے کی۔ “واؤ” خوبصورت نمرہ اور تنزیلہ نے بیک وقت کہا۔”اچھا کل تم لوگ ٹائم پر آجانا۔پتا ہے نا ہماری پہلی پرفارمینس ہے۔”ثانیہ کا تعلق ایک آزاد خیال گھرانے سے تھا۔ جہاں پہنے اوڑھنے سے آنے جانے تک کسی بھی چیز پہ کوئی پابندی نہیں تھی۔اس کے برعکس نمرہ اور تنزیلہ کا گھرانہ اتنا آزاد خیال نہیں تھا۔ کچھ حدود قیود اور خاندانی روایات رائج تھیں۔ تنزیلہ تو اپنے گھر کے ماحول کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرچکی تھی۔مگر نمرہ اپنے گھر کے ماحول سے متنفر سی رہتی۔حجاب عبائے سے بھی اکثر نالاں رہتی۔اس کی ایک وجہ ثانیہ کی صحبت بھی تھی۔نمرہ نے کل کے دن کے لیے سوچ بچار کرکے ایک فیصلہ لیا جو اسے ثانیہ نے باتوں باتوں میں ازراہ ہمدردی میں دیا تھا۔ابھی وہ عبایا استری کر کے دوبارہ اپنے فیصلے پر غور کررہی تھی۔وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔ کہ اس کی تائی امی نے جلدی میں اسے اپنے ساتھ شام میں رومانہ آنٹی کے گھر چلنے کو کہا کہ وہ انکار بھی نہیں کرسکی۔ “اونہوں کیا ہے۔اب ان کے گھر تائی امی کی کورس کی بور کرنے والی باتیں سننی پڑیں گی”۔

آج ڈیپارٹمنٹ میں ہر طرف خوب رونق و گہما گہمی تھی۔ ثانیہ اور تنزیلہ ایک طرف کھڑی نمرہ کا انتظار کررہی تھی۔کال کرو اس کو کہاں رہ گئی ہے۔ تنزیلہ نے چاروں طرف سجے ڈیپارٹمنٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ثانیہ سے کہا۔پہنچ گئی ہے جی سی آر میں ہے بس ذرا۔ ثانیہ کے لہجے میں کچھ تھا جو تنزیلہ کو تھوڑا عجیب لگا۔اتنے میں سامنے سے تیز تیز قدم اٹھاتی خوبصورتی سے تیار کندھے پر دوپٹہ ڈالے نمرہ آتی دیکھائی دی۔”اوہ تو یہ بات تھی۔تم دونوں کی ایکسائمٹ دیکھ کے اندازہ تو ہو رہا تھا مجھے۔ویسے آج تمہاری ماما نے کچھ کہا نہیں۔حیرت ہے۔” تنزیلہ نے اس کے سراپے پر نظر ڈالتے ہوئے الجھے لہجے میں پوچھا۔”ماما کو بتایا ہی نہیں۔گھر سے عبائے میں ہی آئی ہوں”۔نمرہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ “تم دونوں کیا باتیں کر رہی ہو۔اتنی پیاری لگ رہی ہے آج میری دوست”۔ چلو اندر چلتے ہیں ثانیہ نے نمرہ کے کچھ پریشان سے چہرے کو دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔نمرہ بھی خیالات کو جھٹک کے چلنے لگی۔

ان کی گروپ پرفارمینس کے بعد دوسرے گروپ کی پرفارمینس شروع ہوئی جو حجاب کے حوالے سے تھی۔جس میں اسکارف پہننے والی خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو ایک مختلف انداز میں دیکھایا جارہا تھا۔ پرفارمینس انتہائی متاثر کن تھی۔سب انہماک سے دیکھ رہے تھے۔اسٹیج پر نظریں جمائے نمرہ تو کہیں اور ہی پہنچ چکی تھی۔ صبح سے جاری کشمکش اب ملامت میں بدل چکی تھی۔ “جس اسکارف عبائے کو آج میں محض اپنے دل کی خواہش پر اپنے گھر والوں کو دھوکے میں رکھ کے اتار چکی ہوں۔اسی دنیا کے دوسرے حصے میں کوئی اسی اسکارف کو پہنے کے لیے اپنی جان دے رہا ہے۔اور کوئی حالت جنگ میں بھی اسے تھامے ہوئے ہے”۔

اسٹیج پر موجود منظر کو دیکھتے ہوئے اس کے ذہن میں کل شام کی باتیں گونجنے لگی۔ ‘ کہ اپنی ازواج سے اور مومن عورتیں سے کہہ دو کہ جب باہر نکلیں تو اپنی اوڑھنیاں اپنے سینے پر ڈال لیں ـ۔ تائی امی فخریہ انداز میں اسے عبائے میں دیکھتے ہوئے رومانہ آنٹی سے کہہ رہی تھی کہ “ہم نے اپنی بچیوں کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھایا ہے”۔ رومانہ آنٹی کہہ رہی تھیں۔ کہ اگر مومن بندہ کوئی غلط قدم اٹھاتا بھی ہے تو اللہ اسے کہیں نہ کہیں سے سرزنش ضرور کرتا ہے۔اگر ابھی تائی امی مجھے ایسے دیکھ لیں تو۔کیا میں قرآن مجید کے احکام کے مطابق چل رہی ہوں۔تالیوں کی تیز آواز اس کو واپس لائی۔وہ آنکھوں کی نمی کو صاف کرتے ہوئے عبایا پہنے کے لیے تیزی سے ہال سے نکل گئی۔