اعتراف یا مذاق

لطیفے انسان کو ہنسانے کےلیے ہوتے ہیں مگرکچھ لطیفے ایسے ہوتے ہیں جس کو سن کر یا پڑھ کر کچھ لوگ تو ہنستے ہیں مگر کچھ لوگوں کا دل اس پر ماتم کرنے کو چاہتاہے۔

بچّوں کے عالمی دن کے موقع پر یہ خبر وزیر اعلیٰ سند ھ محترم سید مراد علی شاہ کی طرف سے آئی کہ جس میں انہوں نے کہا کہ سیف سٹی کے پہلے مرحلے پرکام تیز کردیا ہے۔ سندھ میں کئی شہرہیں جن کو محفوظ بنانے کے کام کے پہلے مرحلے کو ابھی تیز کردیا گیا ہے اور نہ جانےاس مرحلے کے بعد اور کون کون سے مرحلے آنے ہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ گذشتہ ڈیڑھ دھائیوں سے سندھ پر تعینات ہیں۔ وہ جانے کون سے شہروں کو محفوظ بنانے کی بات کررہے ہیں۔

کراچی سندھ کا کیا پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ، اس میں امن وامان کی صورتحال خود امن کو قائم کرنے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار جو اسی بات کی بھاری بھرکم تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔ ایس ایس پی کا اعترافی بیان ملاختہ فرمائیے ایس ایس پی ویسٹ کا بیان ہے کہ کراچی میں ہزاروں وارداتیں ہورہی ہیں اور اس کی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ تمام ہی صوبے میں یہی صورتحال ہے مگر نمایاں صورتحال کراچی کی ہے۔

کراچی میں ایک اندازے کے مطابق پینتیس ہزار پولیس کے جوان اور ہزارو ں رینجرز کے جوان عوام کی جان و مال عزت آبرو کی حفاظت کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے ایک بڑی خطیر رقم ان اداروں پر خرچ کی جاتی ہے ان کو جدید آلات اور ہتھیارسے بھی لیس کیاگیا ہے مگرصورتحال نقطء انجماد کی طرف ہے یہ وہ لطیفہ ہے جس کو دوسرے سنیں گے تو ہنسیں گے اور شہر میں رہنے والا سنے گا تو وہ ماتم کرے گا ۔پہلے لوگ کہتے تھے کہ ان اداروں میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو ان اداروں کو بدنام کررہی ہیں مگراب جب کئی دہائیاں ان اداروں کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے ہوگئے ہیں تو یہ بات اب شہری سمجھ چکے ہیں کہ یہ ساری بھیڑیں ہی ہیں جو کہ کالی ہیں۔ کراچی کے اندر کوئی ایک انچ بھی زمین ایسی نہیں ہے جہاں قانون کی عملداری ہے جہاں عوام اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔ دنیا کا کونسا جرم ہے جو یہاں نہیں ہوتاہے۔ یہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکاہے تجربات کا سمندر ان کے پاس ہے مگر جمعہ جمعہ آٹھ دن ابھی ہوئے ہیں افغانستان کو آزاد ہوئے وہاں شہروں میں جرائم کی تعدا د کا اپنے یہاں ہونے والے جرائم کی تعداد کا موازنہ کرنا چاہئیے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئیے کہ میں اس زمہ دار ی کو ادا کرنے کا اہل ہوں ؟

احساس مرتاہے تو ضمیر بھی مر جاتاہے
یہ وہ موت ہے جس کی خبر نہیں ہوتی

اس کی سب سے بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے اور یہی ان اداروں کی خرابی کی جڑہے سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے ان اداروں میں مقامی افراد کا داخلہ بند ہوچکا ہے سیاسی اثر رسوخ کے حامل افراد ہی ان اداروں میں بطور ملازم کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے بجائے جس سیاسی جماعت نے ان کو ملازمت دی ہے ان کی خدمت میں دن رات ایک کرتے ہیں جو لوگ کراچی کے ڈومیسائل پر اس میں مقامی افراد کے بطور بھرتی ہوئے ہیں وہ بھی جعلی ہیں کیونکہ ڈومیسائل فراہم کرنے والے بھی کرپشن زدہ ہیں ہیں۔

سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی دراصل جرائم پیشہ ، منشیات فروشوں کا ایک ٹولہ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوؤ ں کی سرپرستی سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ممبران کرتے ہیں یہ ڈاکوں انہی وڈیروں کی انتخابی مہم میں کام آتے ہیں ۔ کراچی میں تعیناتی کے لیے بھاری بھرکم رشوت دی جاتی ہے کہ کسی طرح کراچی کے کسی ایسے علاقے میں تعیناتی ہوجائے جہاں منشیات کاکاروبار یا کوئی اسی طرح کا کاروبار ہوتا ہو تاکہ جلد از جلد دی ہوئی رشوت کی رقم وصول ہوجائے اور خاندان کے لیے بھی کچھ بھلا ہوجائے۔

انگریز جب برصغیر میں آئے تو انہوں نے پولیس کے علاوہ فو ج میں بھی مقامی افراد بھرتی کئے ان مقامی افراد کو کنڑول کرنے کے لیے پورے شہر میں چند گورے افسران ہوتے تھے جو کہ پورے شہر کو کنٹرول کرتے تھے جرائم پیشہ افراد کی جراءت نہ ہوتی تھی کہ کسی شہری کو نقصان پہنچاسکیں ۔ امن و امان قام کرنے کے لیے وہ انہی مقامی افراد کو استعمال کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی اپنے کام سے کوتاہی کرتا تو ایسی سزا دیتے کہ دوسرے بھی سہم جاتے تھے ۔ مگر آج قانون نافذ کرنے والیے اداروں کی بھرمار ہے اور ان میں کام کرنے والے اہلکاروں کی بھی بھرمار ہے مگر شہر کراچی جنگل کا نمونہ پیش کررہا ہے ۔

ان اداروں کی کارکردگی گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے ویسے بھی اس شہر کے رہنے والوں کی زندگی کے ای ، گیس کے محکمے ، واٹر اینڈ سیوریج نے اجیرن کر رکھی ہے یہ تمام ادارے عوام کی جیبوں پر دن دھاڑے ڈاکے ڈال رہے ہیں اس ساری صورت حال میں سیف سٹی اور اس کے بھی پہلے مرحلے کے کام میں تیزی اور ایس ایس پی کا بیان ایک لطیفے سے کم نہیں جو کہ دوسرے سنیں تو ہنسیں اور سندھ کے شہری باالخصوص کراچی کے رہنے والے ماتم کریں ۔