گیارہ سالہ بچی مریم ذہین اور حساس طبیعت رکھتی تھی، لیکن اس کے والدین اسے پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے کیونکہ والد مزدور تھے اور ماں گھروں میں کام کرتی تھی، 3 بہنیں 2 بھائی، ماں باپ اور دادا دادی گھر کے 9 افراد کا خرچہ اور اوپر سے باپ کو کبھی مزدوری ملتی کبھی نہیں ملتی، خیر جیسے تیسے اس نے قرآن پاک تو پڑھ لیا ۔
لیکن وہ اکثر سوچتی کہ ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے کیونکہ وہ اپنے چاروں طرف یہ ہی ماحول دیکھ رہی تھی کہ باپ مزدوری کرتے اور ماں گھروں میں کام کرتی ہیں اس پر گھر بھی کرائے کا اور بچے یونہی گلیوں میں کھلتے کھلتے بڑے ہو جاتے ہیں ان کی شادی وٹے سٹے میں کردیتےتھے اور وہی روٹین باپ کام کرے یانہ کرے ماں نے گھروں میں کام کرکے بچے پالنے ہیں مریم یہ ہی سوچتی کہ ہم اپنے حالت کیسے بدل سکتے ہیں وہ یہی سوچتی کہ کیا میرے بھائی بھی گلی میں کھیلتے کھیلتے بڑے ہو جائیں گے اور ہماری شادی بھی کسی کے ساتھ وٹے سٹے میں ہو جائے گی پھر اچانک اس کے چہرے پر چمک آگئی اور وہ سلائی سینٹر پہنچی اور سلائی سیکھی پھر سلائی کر کے پیسے جمع کیے اور اپنی سلائی مشین خرید کر اپنے گھر میں سلائی شروع کر دی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کو اس کی سلائی پسند آتی۔ ایک دن مسز زبیر ! مریم کا پتہ معلوم کرتی ہوئی اس کے گھر آئیں مریم ان کو حیران دیکھ رہی تھی کیونکہ ان کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ امیر خاتون ہیں۔ مریم نے انہیں عزت سے بیٹھایا اور پوچھا کہ کیا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم بہت اچھی سلائی کرتی ہو اور ڈیزائینر بھی ہو مریم نے کہا کہ جو جیسا ڈیزائن دیتا ہے الحمدللہ میں بنا لیتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نمونے کے لیے میں یہ دو سوٹ لائی ہوں اور اس ڈئزائن کے سینے ہیں اگر مجھے پسند آئے میری بوتیک ہے میں تمہیں اپنی بوتیک کے آڈر کے لیے رکھ لوں گی ۔
مسززبیر کہنے لگیں یہ جو تم محلے کے کپڑے سیتی ہو اس سے زیادہ پیسے دوں گی۔ مریم نے کہا ٹھیک ہے اور وہ سوٹ سلائی کریئے، مسز زبیر نے جب وہ دونوں سوٹ دیکھے بہترین سلائی اور ڈیزائن وہی جو دیا تھا بس پھر کیا تھا مسز زبیر نے اپنی بوتیک کے آڈر مریم کو دینے شروع کر دیئے مریم کو بھی رقم اچھی ملنے لگی مریم نے اپنے بہن بھائیوں کو گورنمنٹ اسکول میں داخل کرا دیا اس طرح وقت گزرتا گیا مریم آہستہ آہستہ ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی اور آج اپنا بوتیک ہے۔
مریم کے بھائیوں نے ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور بہنوں کی اچھے خاندان میں شادی کردی اور گھر بھی اپنا ہے۔ آج مریم کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کا وہ خواب دیکھا کرتی تھی ۔