اُمید ہی زندگی ہے

ہم بحیثیت انسان نا شکرے ہونے کے ساتھ ساتھ جلد باز اور بے صبرے بھی کمال کے ہوتے ہیں ـ کام ابھی شروع کرتے نہیں اور کامیابی کی چوٹی پر پہنچنا چاہتے ہیں ـ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم محنت ویسی نہیں کرتے جیسی کرنی چاہئیے اور نہ ہی کام کو اُس طرح وقت دے پاتے ہیں اور نہ ہی پریکٹس کرنے میں انصاف کر پاتے ہیں ـ خواب تو بڑے دیکھتے ہیں لیکن جب ان پر عمل کا وقت آتا ہے تو کل پر ڈال دیتے ہیں ـ کبھی موڈ نہیں بنتا، کبھی حالات موافق نہیں ہوتے تو کبھی سستی آڑے آجاتی ہے ـ غرض بہانے ہزار ہوتے ہیں ـ

ابراہیم لنکن کہتے ہیں کہ ” جو کام آج ہو سکتا ہے اسے کل پر نہیں ڈالنا چاہئیے ـ”۔

ایک تو ہم امیدیں بہت زیادہ باندھ لیتے ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو مسئلے کی بنیادی وجہ کو ڈھونڈنے اور اس کو حل کرنے کی بجائے واویلا ڈالنا ’’ رونا پیٹنا اور خود کو‘‘ قسمت کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ـ ناامیدی تو کفر میں گردانی جاتی ہے پھر ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیسے اُس راہ کے مسافر بن جاتے ہیں ـ کہتے ہیں کہ جب ہم ناامید اور پریشان ہو کر اپنا راستہ بدلتے ہیں اُسی مقام سے آگے ہمارے لیے آسانیاں یا مواقع رکھے گئے ہوتے ہیں ـ قدرت نے ہمارے لیے بے مثال سوچا ہوتا ہے جہاں تک ہماری سوچ پہنچ ہی نہیں سکتی اور وہ ذات کبھی ہماری محنت کو رائگاں جانے ہی نہیں دیتا ـ

بقول نیلسن منڈیلا: ’’ جینے کی خوبصورتی یا شان اس میں نہیں کہ ہم کبھی گرے نہیں (یعنی کبھی ناکام نہیں ہوئے) بلکہ اس میں ہے کہ ہم گرِ کر کیسے اُٹھتے ہیں، کیسے سنبھلتے ہیں‘‘۔

اکثر کچھ حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں یا ہم کچھ فیصلے جلد بازی میں کر جاتے ہیں اور بعد میں ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے یا پھر ہم سوچتے ہیں کہ یہ کام ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا یا کاش ایسا نہ ہوا ہوتا، کاش وہ وقت لوٹ آئے، کاش میں اُس وقت تھوڑی محنت اور کر لیتا لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو اس پر رونے دھونے یا افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ـ

جب ہمارا کوئی بہت پیارا یا عزیز وفات پا جاتا ہے، ہماری نوکری چلی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کوئی مشکل یا افتاد آن پڑتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب ہماری زندگی ختم ہو گئی ہے، اب جینے کا کیا فائدہ ؟ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہر کام میں مالکِ کائنات کی بہتری ہوتی ہے ـ وہ خالق و مالک ہے بہتر جانتا ہے اور اُس کے رازوں کو ہم نہیں جان سکتے ـ ہم نے صرف اپنا کام کرنا ہے اور نتائج اس ذات پر چھوڑ دینے ہیں ـ زندگی بہت خوبصورت ہے اور اُتار چڑھاؤ اس کا حصہ ہیں جو اِس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور ہمیں اپنے رب کے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ کام کوئی سا بھی ہو، فیصلہ جیسا بھی ہو، مقصد میں کامیابی ہمیں اپنے آرام دہ ماحول (کمفرٹ زون ) میں حاصل نہیں ہوتی اور اکثر ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم نے سوچا ہوا ہوتا ہے ـ بہت کم ہی آئیڈیل حالات و واقعات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ـ جب زندگی ہمیں مشکل میں ڈالتی ہے ، ہمارے اعصاب کا امتحان لیتی ہے اور ہم ٹھوکریں کھاتے ہیں، دل شکستہ ہوتے ہیں تبھی ہم سیکھتے ہیں اور مشکل حالات سے گزر کر ہی کندن بنتے ہیں ـ کہتے ہیں نا کہ تجربہ عمر سے نہیں آتا بلکہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں ٹھوکریں کھانے سے آتا ہے اور کتابیں ہمیں اتنا نہیں سیکھاتی جتنا حالات یا زندگی ہمیں سیکھاتی ہے ـ

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم محنت و مشقت کر کے ‘ دن رات ایک کر کے اپنی قابلیت پر کوئی مقام حاصل کرتے ہیں یا اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تب ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا ـ ہم خود کو چاند پر اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر محسوس کرتے ہیں ـ خوشی سے نہال ہوتے ہیں ـ اپنی محنت اور صلاحیتوں پر خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے ‘ ہمت و حوصلہ پروان چڑھتا ہے ـ دراصل یہی کامیابی ہے ـ خود کا خوش اور مطمئن ہونا اور مقصد حاصل ہونے کی خوشی کو محسوس کرنا ہی اہم ہوتا ہےـ کسی کے لیے منزل مل جانا بھی خوشی کا باعث نہیں ہوتا اور کسی کے لیے پہلا قدم اور راستے پر چل نکلنا بھی معرکہ سر کرنے کے برابر ہوتا ہےـ یہ سب ہماری سوچ اورنقطہ نظر پر منحصر ہوتا ہےـ جب ہم مسائل کو خود پر حاوی کر لیتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر ان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ظاہر ہے ہم ان کے نیچے دب جاتے ہیں اور ان مسائل کے علاوہ کچھ دیکھ ہی نہیں پاتےـ

ہمیں ہمیشہ اپنے مقصد پر نظر رکھنی چاہئیے جس کی وجہ سے ہم نے اُس سفر کا آغاز کیا تھاـ جب تک ہم پہلا قدم نہیں اٹھائیں گے’’ ٹھوکر نہیں کھائیں گے‘‘ ناکامی کا سامنا نہیں کریں گے، تب تک ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور مزہ اِسی بات میں ہے کہ اُن تجربات سے سیکھا جائے، اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس فیلڈ میں کامیاب لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے ‘ تبادلہ خیال کیا جائے’ ان کے تجربات و مشاہدات سے سیکھا جائے تاکہ ان کی کی گئی غلطیوں کو ہم نہ دہرائیں ـ

ایلینور روز ویلٹ لکھتے ہیں کہ ” دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں ـ آپ ان کو خود کر کے سیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہ سکتے ـ”

یہاں بھی ہماری منفی سوچ آڑے آجاتی ہے ـ ہمیں دوسروں کی کامیابی تو نظر آتی ہے لیکن اس کامیابی کے پیچھے ان کی دن رات کی محنت اور ماہ و سال کا عرصہ ’’ چیلنجز‘‘ ناکامیاں نظر نہیں آتیں ـ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ان کو پلک جھپکتے ہی منزل مل گئی ہے یا کامیابی پلیٹ میں سجی ہوئی مل گئی ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا تقریباً سب کو اس سفر میں قربانیں دینی ہی پڑتی ہیں ـ

لہذٰا ہمیں خود پر کام کرنا چاہئیے اور اپنی سوچ کو بدلنا چاہئیے ـ مسائل کو حل کرنے کا سوچنا چاہئیے نہ کہ ان کو خود پر حاوی کر لینا چاہئیے ایسا کرنے سے صرف ذہنی و جسمانی بیماریوں اور ڈپریشن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ـ مزید یہ کہ اپنا موازنہ کسی دوسرے سے کبھی نہیں کرنا چاہئیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اچھا گمان رکھنا چاہئیے کیونکہ جب تک امید قائم ہے تب تک یہ دنیا قائم ہے اور امید ہی زندگی ہے ـ