اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت منظور کر لی لیکن راولپنڈی پولیس نے ہنگامہ آرائی اور کارِ سرکار میں مداخلت کے الزامات کے تحت درج ایک مقدمے میں خان کو پھر گرفتار کر لیا حالانکہ عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں اس کے باوجود جماعت کے کارکنوں کو مشتعل کرنے اور حکومت کے خلاف اُکسانے جیسے الزامات میں ان کے خلاف مقدمات درج ہیں ایک مقد مہ میں عمران خان کی ضمانت منظور ہوتی ہے تو انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے ، خود تو پاکستان اور بیرون پاکستان عوام میں آ نہیں سکتے اور خان کو عوام میں جانے نہیں دیتے ، مافیا جانتی ہے کہ عمران خان جیل میں ہیں لیکن ا س کے چاہنے والے عمران خان کی سوچ کے ساتھ سڑک پر ہیں۔
در اصل رجیم مافیا اپنے سیاسی مستقبل کے خوف میں مبتلا ہے ، یہ ہی وجہ ہے عمران خان کی آواز پر 24 نومبر کے لانگ مارچ سے قبل اسلام آباد کی انتظامیہ نے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرز پہنچا دیئے ہیں ، تخت اسلام آباد کو بچانے کے لئے اسلام آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستوں میں کنٹینرز ر رکھ کر دارلحکو مت کے باشندوں قید کر دیا ہے، تعلیمی اداروں میں تعلیمی سر گرمیاں معطل کر د ی گئی ہیں ، لیکن قیدی نمبر 804، کے پرستار حق اور صداقت کی آواز ہیں ، ایک واحد شخص عوامی جمہوریت اور ،پاکستان کے خوبصورت اور آ زاد مستقبل کے لئے امریکی مافیا کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔
عمران خان نے علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر ایوب کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کریں لیکن مذاکرات میں تین مطالبات کو سامنے رکھیں ، 24 نومبر کی شام سے پہلے ، 1 ، پاکستان بھر میں سیاسی قیدیوں کا رہا کر دیں ، 2 ، پاکستان میں عوامی حقیقی جمہور یت اور آئین کو بحال کر دیں ،3 غیر آئینی پارلیمنٹ کے آئین میں 26 وین غیر آئینی ترمیم کا خاتمہ کر دیں
دنیا اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گی ۔ تحریک ِ انصاف کو دبانے کے لئے تمام تر حربوں ظلم اور بربریت کے باوجود قوم کے بیدار قومی شعور نے تختَ اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، پاکستان کی 76 سا لہ تاریخ میں کبھی بھی پاک فوج کو اس طرح کی شدید ترین عوامی نفرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، تختِ اسلام آباد پر قابض مافیا نے اپنی بقا کی جنگ میں اخلا قیات کا جنازہ نکال دیا ، دنیا یہ بھی جان گئی ہے کہ کہ تحریک انصاف کے قائد کو جھکنے پر مجبور کرنے کے لئے 9 مئی کا ڈرامہ کھیلا گیا ۔ تاکہ محب وطن باشعور عوام کو کچلنے کے لیئے کوئی الزام تو ہو ۔
برطانیہ سے واپسی پر اداروں کے یار اور ما فیا کے سہولت کار مولانا فضل الرحمان بھی کہنے لگے ہیں ۔ تحریک انصاف کو احتجاج کا حق ہے لیکن 24 نومبر کی کال کے لئے وقت مناسب نہیں ! جانے وہ کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہتے ہیں تحریک انصاف میں موٗثر حکمت ِ اپنانے کی پالیسی بنانے والے لوگ نہیں ، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ موٗثر حکمت بنانے والے تو مولانا کی جماعت میںہیں
تخت ِ اقتدار کو عمران کی سونامی سے بچانے کے انتظامیہ نے سندھ اور پنجاب سے بھی دو، دو ہزار پولیس اہلکاروں پر مشتمل نفری طلب کر رکھی ہے۔ حکم جاری ہوا ہے کہ پنجاب سے آنے والے 10 ڈی پی اوز اپنے ساتھ 500، 500 پولیس اہلکار کے ساتھ آئیں۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ تخت اسلام آباد کے غاصب کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف50، افراد بھی اکھٹے نہیں کر سکتی ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر اسلام آباد کے باشندوں کو کیوں قید کیا جارہا ہے ، داخلی اور خارجی راستے کیوں بند کئے جارہے ہیں ظاہر ہے مافیا حواص باختہ ہے ، در اصل وہ جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے انصافیوں کا نعرہ ہے ، اب نہیں تو کبھی نہیں ، ہم نہیں تو کون ؟۔