زندگی کو بامقصد بہت کم ہی لوگ بنا پاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنی زندگی کا ایک مقصد بنالیں اور پوری زندگی اس کے حصول کی جدوجہد میں لگا دیں اور اپنا نام رہتی دنیا کے لئے امر کر جائیں ۔۔۔ پھر اگر یہ مقصد اللہ کے نزدیک پسندیدہ و مقبول ہے تو بے شک ان کی زندگی کامیاب ترین زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔ چاہے ان کی زندگی میں لاکھ مصائب و مشکلات آئیں ، وہ مال و اسباب اور گھر بار سے محروم ہوں ، ان سے دنیا کی ہر نعمت چھین لی جائے یہاں تک کہ انھیں اپنے پیاروں کی قربانی تک دینا پڑے اور آخر میں تمام نذرانے پیش کرنے کے بعد اپنی جان بھی اس مقصد میں قربان کرنی پڑے ۔ لیکن وہ کامیاب ہیں کیونکہ دنیا کی نظر میں تو کامیابی کے پیمانے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن قرآن کے مطابق کامیابی اس وقت ملے گی جب کہا جائے گا کہ “اے نفس مطمئن چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اپنے انجام سے خوش اور راضی ہے داخل ہو جا میری جنت میں شامل ہو جا میرے نیک بندوں میں.” یہ ہے کامیابی کی معراج اور ہر مومن کی منزل مقصود۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایسی زندگی گزارنے والوں پر آنے والی آزمائشیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ ان کی نوعیت الگ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ہے کہ کسی پر کم آتی ہیں کسی پر زیادہ ۔۔ لیکن اصل کمال ان آزمائشوں کے باوجود ڈٹے رہنا ہے ، جمے رہنا ہے اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے ۔ فی زمانہ ہمارے سامنے یہ مثالیں موجود ہیں ، استقامت کے کوہ گراں جا بجا عزیمت کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ بے پناہ مصائب و آلام ، بھوک و پیاس کی تکالیف ، مال و اسباب اور گھر بار لٹانے اور اپنے پیاروں کو قربان کرنے کے باوجود اپنے راستے سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے ہیں ۔ اگر ایسا پُرعزم قافلہ کسی تحریک میں ہو تو کسی اثاثے سے کم نہیں کیونکہ یہی تو تحریک کی مضبوطی اور پائیداری کا ضامن ہے۔ ہمارے سامنے تو بڑی مثال موجود ہے کہ اہل غزہ کی اسی استقامت ، مضبوطی اور ثابت قدمی نے ان کے دشمن کو بھی بوکھلا دیا ہے۔ تین سو ساٹھ دنوں کی ہلاکت خیزیوں کے باوجود جب کوئی ایک فرد بھی اپنے مقدس مقصد اور تحریک کی حمایت سے پیچھے ہٹنے، اس کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں تو وہ چیخ اٹھا ہے کہ حماس تو ایک نظریہ ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ ان ہی حالات میں اسماعیل ہنیہ کے بعد یحییٰ سنوار کی شہادت نے اس عزم وہمت کو توڑا نہیں بلکہ اور مہمیز دی ہے خصوصاً یحیی سنوار کی آخری دم تک مزاحمت اور آخری وار نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو انھیں امر کر گئی ہے ۔ خبر ہے کہ یحیی سنوار کو عرب ڈکشنری نے بھی ضم کر دیا ہے ۔ صحافی و اینکر خدیجہ بن قنہ کے مطابق عربی زبان کے ضرب الامثال کی ڈکشنری میں نئی مثل کا اضافہ ہوگیا کہ “رميته بعصي السنوار” یعنی: “میں نے اس پر السنوار کی چھڑی پھینک دی۔” جس کا مطلب ہے کسی ہدف کو سر کرنے کے لئے اپنی تمام تر جہدوجہد کو صرف کرنا۔
دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کا ردعمل بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق “یحییٰ السنوار کی آخری تصاویر نے انہیں فلسطینیوں اور عربوں کے لیے ایک لیجنڈ اور ہیرو میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کی شخصیت اور موت نے انہیں ایک علامتی حیثیت دے دی ہے، اور ان کی شہادت نے فلسطینی مزاحمت کی طاقت اور عزت کو مزید بڑھا دیا ہے۔” بی بی سی کہتا ہے کہ “یحییٰ السنوار فلسطینی عوام کے لیے ایک شہید بن چکے ہیں۔ ان کی شہادت اس بات کی گواہی ہے کہ انہوں نے کبھی پیچھے ہٹنے یا دشمن سے چھپنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی پناہ گزینوں کے درمیان چھپے، نہ سرنگوں میں گئے، بلکہ وہ آخر تک لڑتے رہے”۔ قریب قریب یہی “خراج تحسین” وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین اور عبرانی اخبار ہارننس بھی پیش کرنے سے نہ رہ سکے ۔ سب سے اہم تجزیہ امریکی اخبار فارین افیئرز کا ہے کہ “اگرچہ یحییٰ السنوار کی موت ہو گئی، لیکن حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ حماس ایک انتہائی منظم اور مربوط تنظیم ہے، جو “سر کاٹنے” کی حکمت عملی سے کمزور نہیں ہوگی۔ حماس کے پاس ایک مضبوط ڈھانچہ اور قیادت کا نظام ہے جو السنوار کی شہادت کے بعد بھی مزاحمت جاری رکھے گا۔”
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کارکنان کی تحریک کے مقاصد اور نصب العین سے لگن ، عزم و استقلال اور ثابت قدمی تحریک کو جلا بخشتی ہے اور سربراہ تحریک کو ہمت ، حوصلہ ، طاقت اور مضبوطی عطا کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک اور کارکنان کا آپس میں مضبوط رابطہ ، محبت اور خیر خواہی اور فکری وابستگی بہت ضروری ہے جب ہی وہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اہل غزہ اور حماس تمام تحریکوں کے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اس وقت جب کہ شمالی غزہ میں تین ہفتوں سے جاری اسرائیلی بمباری میں نہتے عوام، جن میں خواتین، بچے اور بیمار شامل ہیں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا ۔ شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے، اور خوراک، پانی اور طبی امداد تک رسائی کو بند کر دیا ہے، لاکھوں لوگوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ مزید براں، قابض فوج نے شمالی غزہ سے 600 سے زائد شہریوں کو انتہائی ظالمانہ حالات میں حراست میں بھی لیا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں بلکہ اسرائیلی کنیسٹ کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی ایجنسی ‘اونروا‘ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیر سموتریچ نے اپنے حالیہ نسل پرستانہ بیانات، میں فلسطینی علاقوں پر قبضے کی کھلم کھلا بات کی گئی ہےجو قابض حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کا عکاس ہیں اور پورے خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اس افسوسناک امر کے باوجود کہ پوری عالمی برادری کھلم کھلا جنگی جرائم و دہشت گردی ، بین الاقوامی قوانین کی پامالی، انسانی جانوں کے زیاں پر خاموش ہے جس میں سب سے زیادہ مجرم اسلامی برادری ہے جس کی خاموشی نے اسرائیل کو شہہ دی ہے ۔ ان سب کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ مزاحمت مدھم نہیں پڑی اور نہ عوام کا عزم و حوصلہ ۔۔۔ بلکہ یہ ایک نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ لہذا حماس اپنے حالیہ اعلامیے میں جہاں یہ مطالبہ کرتی ہے کہ “ہم پوری دنیا سے کہتے ہیں کہ ہماری پکار کو سنیں، ہمارے عوام کی تکلیفوں کو محسوس کریں، ہمارے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور قتلِ عام کو دیکھیں۔” وہیں اس عزم کا بھی اظہار کرتی ہے کہ “ہماری استقامت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، ہماری عوام اپنی سر زمین پر ڈٹی رہے گی ، اپنے حقوق پر ثابت قدمی سے قائم رہے گی اور اپنے قومی و مقدس اصولوں کا دفاع کرتی رہے گی، چاہے اس کے لیے کتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں” یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مزاحمت جاری رہے گی کیونکہ مزاحمت ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا. ہاں عالمی برادری خصوصا اسلامی برادری کی خاموشی اور ضمیر فروشی ضرور لمحہ فکریہ ہے۔