تعلیم میں ہمارے معیارات

اسلامیات کی ٹیچر نے مختلف موضوعات پر بچوں کو لیکچر دیے، ان سے ہوم ورک کروائے، جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق کئی باتیں تھیں جن کی اسلامی نکتہ نگاہ سے اہمیت و افادیت بیان کی گئی ۔ مگر جس چیز کی کمی رہ گئی تھی وہ شاید ان باتوں پر عمل کروانا تھا۔ اس بات کا احساس انہیں اس دن ہوا کہ جب ان کا پیریڈ ختم ہوچکا، لیکچر ابھی باقی تھا، دوسرے سبق کی ٹیچر آئیں تو ان سے وقت لے کر وہ اپنے لیکچر کو مکمل کرنے لگیں، اتنے میں بچوں کی بے چینی نے انہیں متوجہ کیا۔

دوسری ٹیچر کے جاتے ہی بچوں میں چہ مگوائیاں شروع ہوگئی تھیں، بچوں کی باتوں میں کہیں ناراضی تھی اور کہیں بدتمیزی کا عنصر عیاں تھا۔ بچے سمجھدار تھے مگر جو جملے محسوس ہوئے وہ گویا کلاس کے اداب کیخلاف تھے۔ غیبت، چغلی، بدگمانی، غلط القابات سمیت کئی دیگر چیزیں ایک ہی لمحے میں یکجا تھیں۔اسلامیات کی ٹیچر کو اس وقت جو چیز محسوس ہوئی وہ شاید تعلیم سے بڑھ کر ادب و اخلاق کی کمی تھی۔ اگرچے ان کے کہنے پر وقتی طور پر بچے خاموش ہوگئے مگر کمی پھر بھی موجود تھی اور وہ تھی اخلاقیات کی۔ یعنی ہم اپنے نظام تعلیم میں تعلیم یا پھر انفارمیشن پر توجہ دے رہے ہیں مگر جو چیز اہم ہے وہ اخلاقیات کو عملی زندگی کا نمونہ بنانا۔کل تک تعلیم کا مقصد تعمیر شخصی و خود کی اصلاح ہوا کرتا تھا مگر اب تعلیم کا مقصد صرف مارک شیٹ و ڈگری، اچھی جاب تک محدود رہ گیا ہے۔ جبکہ تعلیم یافتہ شخص کو تمیز و تہذیب سے مالا مال ہونا چاہئیے۔اور آج کل ہماری نئی نسل کا دھیان تعلیم سیکھنا نہیں رہا بلکہ انہوں نے خود کو کھیل کود میں قید کر لیا ہے۔ بے ادب، سست اور محنت سے کترانے والے بنتے جا رہے ہیں۔ کوئی انہیں سکھائے! شروع سے محنت کریں گے تو کامیاب ہونگے۔ ملنے والی تعلیم کو اپنی زندگی میں شامل کریں گے تو کامیاب شخص ٹھہریں گے۔

ہماری زندگی ہمارے ہر معاملے میں محنت مانگتی ہے جس کام میں ہم سب سے زیادہ محنت کریں گے اسے کامیابیاں نصیب ہوں گی اور یہ ہمیں ہماری تعلیم سکھاتی ہے اور تعلیم کے شعبہ میں ملنے والے ہمارے بہترین استاد سکھاتے ہیں۔دس کتابوں کا مواد ذہن نشین کر لینا کافی نہیں ہوتا۔ دیکھ دیکھ کے پرچے حل کرنے سے کوئی صلاحیت ہاتھ نہیں لگتی۔ فلمی ڈائیلاگ یاد کر لینے کردار نہیں سنورتے۔ کردار سنوارنے کے لئے ہمیں علم کی ضرورت ہوگی اور وہ علم ہمیں اللہ سبحان و تعالیٰ کی کتاب سے ملے گا۔ اس کی تعلیم سے ملے گا جتنا وقت اپنا تعلیم حاصل کرنے میں خرچ کریں وہ بھی نامہ اعمال میں گواہ بنا کر لکھ دیا جائے گا۔ تو آج سے محنت کریں خود بھی تعلیم و دین سیکھیں اور آگے بھی تعلیم کو فروغ دینے والے بنیں۔

آج کسی کے لئے آسانی کریں گے تو آگے اللہ آپ کے لئے آسانی کرے گا۔ اسلام نے یہ تصور دیا ہے کہ وہ انسان جو علم رکھتے ہیں انہیں دوسروں پر برتری حاصل ہے۔ اللہ نے جتنے بھی انبیا بھیجے ان سب کا کام بھی تعلیم کو فروغ دینا تھا اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہمارے لئے معلم بنا کر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکمل حیات اسی عمل میں مصروف رکھی کیونکہ تعلیم کے حصول کے لئے قابل اساتذہ کی بے حد ضرورت ہوتی ہے جو ہماری تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کریں اور انسان کی چھپی صلاحتوں کو اجاگر کریں تاکہ احسن انداز میں انسان کی شخصیت سازی ہو۔ تعلیم کے متعلق امام غزالی کہتے ہیں کہ ”تعلیم اخلاق کی تعمیر اور تشکیل کا عمل ہے۔