ہے زندگی حجاب میں

محفل اپنے عروج پر تھی سب ہی گھر والے بے ہنگم میوزک پر تھر تھرا رہے تھے بس فوزیہ بیگم اپنی بیٹیوں کو ایک پردے کی اوٹ میں لیے بیٹھیں تھیں ،یہ سب کچھ دیکھنے اور بچیوں کو دکھانے کے قابل تو نہ تھا مگر اس محفل میں نہ چاہتے ہوئے بھی آنا ضروری تھا۔ساس صاحبہ کا حکم تھا گھر کی پہلی شادی ہے اور وہ بھی نند کے بیٹے کی دیور کی بیٹی سے، قریبی رشتوں کو نبھانا بھی ضروری ہوتا ہے،بڑی مشکل سے ڈانس کا دور ختم ہوا اور کھانا لگا ،فوزیہ بیگم اور بچیاں دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے محفل میں سب سے الگ اور مختلف نظر آرہی تھیں جہاں ذیادہ تر خواتین بے حجاب اور کم لباس تھیں۔

فوزیہ بیگم کے شوہر ملک سے باہر بسلسلہ روزگار مقیم تھے جو کہ بہ وجہ ملازمت کچھ عرصےمیں ایک مختصر وقت کیلیے چکر لگا جاتے تھے سسرال اور میکے کے معاملات کو نمٹانےسے لیکر گھر کی چھوٹی بڑی سب ذمہ داریاں فوزیہ بیگم کو اکیلے ہی نپٹانا پڑتی تھیں۔

کھانے کی ٹیبل پر سب ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ بابر نے(جو کہ فوزیہ بیگم کے دیور تھے )، اپنی بھابی کو مخاطب کرتے ہوئے سوال داغہ ،بھابھی کیا آپ ہماری بھتیجیوں کو بھی ایسے ہی بُرقع اڑھائیں گی جیسے خود لیتی ہیں ،اور یہ کہتے ہی سب فوزیہ بیگم کو تنزیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔

فوزیہ بیگم نے باوقار انداز میں جواب دیا! جی ہاں بالکل ان شاءاللہ ۔

یہ سُن کر بابر آگ بگولہ ہوگئے اور بولے! پھر ہماری بھتیجیوں کی شادیاں کیسے ہو نگی جب کوئی ان کو دیکھے گا نہیں۔ ہو جائیں گی اللہ تعالیٰ چاہیں گے تو رب کی مدد سے ،جس نے دی ہیں وہی رب کروائے گا ۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ متحمل مزاج انکساری اور بڑوں کی عزت کرتی حیادار لڑکیوں کی شادیاں اتنی جلدی اور آسانی سے ہو گئیں کہ کئی لوگ تو ہاتھ ملتے رہ گئے کہ پانچ اور بھی ہوتیں تو کم پڑ جاتیں،اللہ تعالیٰ پر توکل اور اسی کا ذکر اسی کرم نوازی مگر افسوس صد افسوس کہ لوگوں کی زبانیں تو بند نہیں کی جاسکتیں مگر اللّہ تعالیٰ غلط کرنے اوربولنے والوں کو دکھا ضرور دیتا ہے۔ بابر کی ایک اکلوتی بیٹی جب شادی کی عمر کو پہنچی تو عمر تو بڑھ رہی تھی مگر رشتے نا پید، لوگ محفلوں میں نظر آنے والی بےحجاب لڑکی کو سراہتی نظروں سے دیکھتے تھے مگر گھر کی بہو بنانے کیلئے سب کو با حیا لڑکی ہی چاہیے تھی۔ بابر اب بہانے بہانے سے بھابھی کو اپنی بیٹی کی شادی کیلئے کوئی رشتہ ڈھونڈنے کو کہتے رہتے، بالآ ٓخر ایک رشتہ کروانےوالی خاتون نے بھاری رقم وصول کرکے ایک معقول رشتہ کروادیا۔

فوزیہ بیگم نے سسرالی رشتوں کو نبھا نے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنے کردار سے متاثر کیا جس کی وجہ سے سسرالی رشتہ داروں کو دینی احکام پر عمل کرنے کی توفیق ملی۔ بے شک ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جنکے اخلاق کی بدولت اسلام پھیلا ۔ پیارے نبی کریم نے فرمایا!تم میں بہتر أدمی وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ (صحیح بخاری)