یادِ ماضی عذاب ہے!

خبروں کی بھرمار دماغ کے لئے خطرہ!
انسانی دماغ کتنا ڈیٹا محفوظ کرسکتاہے؟

معلومات تک آسان رسائی نے جہاں فائدے فراہم کیے ہیںتو وہیں اس نے کئی چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں ۔ فی زمانہ تیزی سے بدلتے لمحات میں خبروں کی بھرمار انسانی دماغ کے لئےسنگین خطرہ بنتی جارہی ہے۔

ماہرین کے مطابق اضافی معلومات کا بوجھ کئی عوارض کاباعث بن رہا ہے۔ اسی تناظر میں کہا جاسکتاہے کہ باخبر رہنا اب انسان کے لئے بے خبر رہنے سے زیادہ خطرناک ہوتا جارہا ہے۔۔ یومیہ تقریباً کتنی خبریں نشر ہورہی ہیں؟دنیا بھر میںروایتی میڈیا اورمختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرتقریباً روزانہ لاکھوں خبریں نشر ہوتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روایتی ٹی وی چینلز، ویب سائٹس اور ریڈیو پر تقریباً 10 سے 15 لاکھ خبریں یومیہ نشرہوتی ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر روزانہ کروڑوں کی تعداد میں پوسٹس شیئرز ہوتی ہیں۔ اس میں سے بیشتر خبریں، ٹرینڈنگ موضوعات یا حالیہ واقعات پر ہوتی ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کے مسلسل اضافے اور موبائل و دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز تک رسائی عام ہونے کے سبب خبروں کی ترویج اور معلومات کی تشہیر کی تعدادمیں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ایک عام انسان کتنا ڈیٹا محفوظ کرسکتا ہے؟ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ایک عام انسان کے لئے یومیہ کتنا ڈیٹا محفوظ کرنا ممکن ہے۔ اس بات کا دار و مدارمعلومات کی نوعیت،پیچیدگی،ذہنی و جسمانی حالت اور یادداشت کی صلاحیت سمیت کئی عوامل پر مشتمل ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہےکہ عمومی طور پر انسانی دماغ ہر روز 50 سے 60 نئی معلومات یا حقائق کو موثر طریقے سے یاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، دماغ روزانہ تقریباً 34 گیگا بائٹسیا ایک لاکھ الفاظ کے برابر معلومات کو سنبھالنے کی صلاحيت رکھتا ہے۔جن میں سمعی،بصری اور دیگر حسی ڈیٹا شامل ہے۔ تاہم تمام معلومات مکمل طور پر محفوظ نہیں رہتیں۔ یعنی ایک انسان کے لیےیہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ وہ روزانہ کے سارے دیکھے اور سنے گئے ڈیٹا کو مکمل طور پر یاد رکھ سکے۔ دماغ قدرتی طور پرمعلومات کو فلٹر کرتا ہےیا یوں کہئے کہ صرف ضروری یا اپنی دلچسپی کی معلومات کو ہی طویل مدتی یادداشت میں محفوظ کرتا ہےجبکہ دیگر معلومات کو دماغ مختصر مدت کے بعد بھول جاتا ہے۔ کیا ایسے میں اضافی مواد کو دیکھنا ذہنی دبائو کا باعث بن سکتا ہے؟جی ہاں!بہت زیادہ مواد کو دیکھنا اور مسلسل معلومات کا سامنا کرنا انسانی ذہن پر دباؤ ڈال سکتا ہے، جسے عام طور پر ”انفارمیشن اوورلوڈ“یا معلوماتی بوجھ کہا جاتا ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات Herbert A.Simon کے مطابق اضافی معلومات کا بوجھ توجہ کی کمیکا باعث بنتا ہے۔یعنی جب بہت زیادہ مواد دماغ پر ڈال دیا جائے تو دماغ کی معلومات کو پروسیس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان ذہنی دباؤ محسوس کرتا ہے۔آج کل بچوں میں موبائل اور کمپیوٹر کا بے جا استعمال مختلف عوارض کا موجب ہوسکتا ہے۔ جدید تحقیق اورکئی مطالعےباخبر رہنے کے حد سے زیادہ بوجھ کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں ۔

دماغی تھکان: روزانہ کی بنیاد پر مسلسل نئی اور اکثر غیر ضروری معلومات کا سامنا انسان کو اُلجھا دیتا ہے۔جب دماغ کو بہت زیادہ معلومات ایک ساتھ پروسیس کرنی پڑتی ہیں تو یہ ذہنی تھکان کا باعث بن سکتی ہے۔ نتیجتاً، انسان کی توجہ اور یادداشت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔

فیصلہ سازی کی مفلوجی: تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جب ایک انسان کو بار بار مختلف معلومات یا متضاد رائے سننے کو ملتی ہیں، تو اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔جسےسائیکولوجی میں”ڈیسیژن فٹیگ“یاد”فیصلہ سازی کی مفلوجی“کہا جاتا ہے۔نتیجتاً اس کے لئے درست اور فوری فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

تناؤ اور بے چینی: سائنسدانوں نے پایا ہے کہ جب انسان کو مسلسل منفیاور اضافی معلومات کا سامنا ہو، تو کورٹیسول نامی تناؤ کا ہارمون بڑھ سکتا ہے۔بے تحاشا معلومات خاص کر خبریں اور سوشل میڈیا کی اپ ڈیٹس، انسان میں بے چینی اور اضطراب پیدا کر سکتی ہیں۔چونکہ نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر منفی خبریں زیادہ توجہ حاصل کرتی ہیں، جیسے جرائم، حادثات، یا عالمی بحران وغیرہ جواضطراب، بے چینی اور نیند کے مسائل کو جنم دیتی ہےجودماغ پرطویل مدتی اثرات بھی چھوڑ سکتی ہے۔

بے چینی اور خوف کا احساس: اکثر باخبر رہنا انسان میں خطرات اور خدشات کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔ جیسے موسمیاتی تبدیلی، عالمی معاشی مسائل، اور عالمی صحت کے بحران، جو انسان کو مسلسل تشویش میں مبتلا رکھ سکتے ہیں۔

معاشرتی تقابل: سوشل میڈیا پر باخبر رہنے کے نتیجے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور خود کو کمتر سمجھنے کی عادت بڑھ جاتی ہے، جو ذہنی تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔

نیند میں خلل: مسلسل اسکرینز کو دیکھتے رہنا اور معلومات کو سیکھنے کی کوشش کرنا نیند میں خلل پیدا کر سکتا ہے، جو مجموعی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔

ڈومسکرولنگ اور دماغی صحت:حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر مسلسل اسکرولنگ جسے ”ڈومسکرولنگ“کہا جاتا ہے، ڈپریشن اور اضطراب کو بڑھا سکتا ہے۔خاص کر جب معلومات منفی وخوفناک مواد،وبائی یا جنگی صورتحال پر مشتمل ہوں۔

اضافی معلومات کے بوجھ سے کیسے بچا جائے؟ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس بوجھ سے کیسے بچا جائے۔-1مخصوص اوقات میں ہی خبریں یا سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔ -2اہم معلومات پر توجہ دیں اور صرف ضروری اور مفید معلومات دیکھیںاور غیر ضروری مواد سے اجتناب کریں۔ -3مواد کو تواتر سے دیکھنے کی بجائے وقفے لیں اور دماغ کو آرام کا موقع فراہم کریں۔ -4بہت زیادہ ذہنی تنائو کی صورت میں سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن مواد سے دور رہیں تاکہ ذہنی سکون برقرار ہوسکے۔ ان اقدامات سے معلوماتی بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے اور ذہنی دباؤ سے بچا جا سکتا ہے۔

تو اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا بے خبر رہنا بہتر ہے؟تو جواب ہے کہ مکمل بے خبری بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے انسان وقت اور حالات سے ناواقف رہتا ہے۔ لیکن محتاط اور فلٹر شدہ باخبری اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔اس لئے سوشل میڈیاکا محدود استعمال،خبر کے معتبر ذرائع اور ضروری معلومات تک محدود رہنا ہی بہتر ہے ۔ خبروں کی بجائے مثبت یا تخلیقی سرگرمیوں میں وقت صرف کرنااورمعلومات کو فلٹر کر کے باخبر رہنے کا طریقہ ذہنی سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک توازن فراہم کرتا ہے۔