برصغیر میں تقسیم ہند کے مطالبے میں شدت ، قیام پاکستان کی کوششوں کا نقطہ آغاز اور تحریک پاکستان کی جہت کا تعین ، حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے 1930 کے خطبہ الہ آباد کے بعد ہوا ۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ “میری یہ خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ضم کر دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے یا باہر، مجھے ایسا نظر آتا ہے شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔”
اس تجویز کی گونج نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ برطانوی ایوانوں میں بھی سنی گئی ۔ یہ مطالبہ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا اور اسی خواب نے 1940 میں قرارداد پاکستان کی شکل میں مسلمانان ہند کو نشان منزل عطاکیا ۔ اگرچہ اقبال کو اتنی مہلت عمر نہ ملی کہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خواب کو تعبیر ملتا دیکھتے مگر ان کے افکار و خیالات ، نظریات اور اصول فلسفہ ہر نہج پر بحیثیت قومی شاعر نشان راہ نما ہیں۔
ہم علامہ اقبال کو بجا طور پر پر مصور پاکستان قرار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مصور کے بغیر ملک نہیں بن سکتے تو کیا ان کے بغیر ملک خوبصورت ہو سکتے ہیں ؟ ملک سنور اور سج سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں!! تو کیا اقبال کے افکار و نظریات کو پس پشت ڈال کر، کلام اقبال اور روح اقبال کو زندہ کیے بغیر ہم ملک کو حیات بخش سکتے ہیں؟ اس کے سماج کو گلنے سڑنے سے بچا سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں!! لیکن المیہ یہ ہے کہ اقبال کا پیغام نسل در نسل منتقل ہی نہیں کیا گیا۔
آج نسل نو کلام اقبال میں مزین اصطلاحات سے ناواقف ہے ، اس میں مذکور فکر اور فلسفہ سے نابلد ہے۔ بلاشبہ اس میں حکومت سمیت تمام طبقات فکر قصور وار ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو محض اقبال ڈے منانے، مزار اقبال پر پھول چڑھانے اور فاتحہ خوانی تک محدود کر لیا ہے لیکن پیغام اقبال کو زندہ کرنے اور سادہ، سہل و عام فہم بنا کر کے نسل نو کے اذہان تک منتقل کرنے کی کوئی سعی نہیں کی ہے۔ یہ نہ صرف روح و کلام اقبال بلکہ ملک کے مستقبل کے لئے بھی کی گئی شدید نا انصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا پاکستان اس تصور سے یکسر مختلف ہے جس کا خواب مصور پاکستان کی آنکھوں نے دیکھا تھا ۔ آج وہ اساسی، نظریاتی اور تصوراتی خاکے ہی لرزہ براندام ہیں جو ظہور پاکستان کا باعث بنے۔
اقبال کہتے ہیں،،
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
لیکن ان بتوں کی پرستش کو ہی دین ایمان بنا لیا گیا۔ وطن عزیز کی سیاست چنگیزیت، معاش سودی مرگ مفاجات اور آئی ایم ایف کی شکل میں میں پنجہ یہود کی دسترس اور سرمایہ داری کے ڈولتے سفینے کا شکار ہو رہی، لادین تعلیم کے ذریعے شاہین بچوں کو خاکبازی کا سبق دیا جا رہا ہے۔ فساد قلب و نظر پر مبنی اغیار کی تہذیب مطمع نظر ٹھہری، نتیجتاً نہ خودی کی شوخی و تندی رہی، نہ وہ سجدہ کہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی، نہ وہ اذان جو پہاڑوں کو رعشہ سیماب دے، نہ سوز و سرور سے لبریز نوا، دل سوز سے خالی، نگاہ پاک نہیں، نہ عشق میں گرمی نہ حسن میں شوخی نہ ذوق تجلی نہ فقیری میں شاہی، دل کی آزادی و شہنشاہی کی بجائے شکم کی پوجا اور تونگری و فقیری کی بجائے زر و ہوس کی بھوک نے بحیثیت قوم ہمیں جرم ضعیفی میں مبتلائے عذاب کر کے تقدیر کے قاضی کا فتویٰ لاگو کر دیا جس کے زیر اثر نہ تن ہمارا رہا نہ من ہمارا۔ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے عمل کرنا تو درکنار سوچ بھی نہیں سکتے۔
بالادست طبقات نے تو 70سالوں سے محکومی اور غلامی کو ترجیحاً ایسا اپنایا ہوا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آزادی کے ساتھ جینا ان کی ضرورت ہی نہیں رہا جب کہ انفرادی سطح پر بھی ہر فرد محکومانہ ذہنیت کا شکار نظر آتا ہے ۔ یہی وہ المیہ ہے جس میں اقبال کا پاکستان گھرا ہوا ہے ۔۔۔ اقبال تصور پاکستان کے خالق ہیں اور ان کی فکر کا کا ہماری اجتماعی، قومی اور انفرادی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں ۔۔۔۔۔!!! جب کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک فکر اقبال ہماری زندگیوں میں داخل نہ ہو گی ہم مضبوط سماج و ریاست کی تشکیل نہیں کر سکتے اور نہ آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں ۔ لہٰذا ،،،
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر