شاعر مشرق کا نکتۂ نظر

پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے یہ نظم اس وقت لکھی جب مسلمان روحانی سیاسی، سماجی اور معاشی بد حالی کا شکار تھے۔ برصغیر پاک و ہند پر حکمرانی کرنے والی قوم زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ ترکی سلطنت کے حصے بخرے ہو چکے تھے۔ باہمی نااتفاقی اور انتشار نے مسلم قوم کو کمزور کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں شاعر اسلام نے انھیں جھنجھوڑا اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قوم کو متحد اور منظم ہونے کا درس دیا۔ کبھی تو وہ نوجوانوں سے خطاب کر کے انھیں ان کا درخشاں ماضی یاد دلاتے ہیں اور کبھی “خضر راہ” لکھ کر انہیں پستیوں سے نکلنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان متحد ہو کر ابھرے، وہ اقوام عالم پر غالب رہے۔ ان کا عروج اپنی مثال آپ بن گیا لیکن جب وہ باہمی نفاق اور انتشار کا شکار ہوئے تو زوال اور پستی کے گڑھے میں جاگرے اور کفار اُن پر غالب آگئے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اتحاد و یک جہتی کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ضامن قرار دیا ۔ فرمایا “ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی پنجابی، سندھی، بلوچی پٹھان یا بنگالی نہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا، محسوس کرنا اور عمل کرنا چاہیے اور صرف پاکستانی ہونے پر ہمیں فخر کرنا چاہئیے. ” یہ امر بے حد افسوس ناک اور تشویشناک ہے کہ آج وطن عزیز میں مختلف سیاسی اور دینی حلقوں میں اتحاد اور یک جہتی کا فقدان ہے. بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا خدا ایک ہے، رسول ایک ہے، قرآن ایک اور قبلہ ایک ہے پھر ہم کیوں ایک نہیں ہو سکتے ؟ شاعر مشرق کا بھی یہی نکتہ نظر تھا۔ فرماتے ہیں۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

کسی قوم اور ملک کی بقا اور ترقی کا راز قومی اتحاد اور یک جہتی میں مضمر ہے۔ مسلمان قوم کے لئے تو اتحاد اور بھی اہم ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں کفر کی تمام قوتیں متحد ہیں ۔ مسلمانان ہند نے اتحاد و اتفاق کی بدولت وہ مسلم ریاست قائم کر دکھائی جس کے نظریے کو دیوانے کا خواب خیال کیا جاتا تھا ۔ آج پھر مسلمانوں کو اُسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً دو ارب ہے۔ وه ستاون آزاد مملکتوں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس بے پناہ افرادی قوت اور مادی وسائل موجود ہیں ۔ پھر بھی عالم کفر سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اُن میں جذبۂ ایمانی اور اتحاد کی کمی ھے۔ کشمیر، فلسطین، یمن، لبنان اور کئی دوسری مسلم ریاستیں کفار کے ظلم و ستم کا شکار ہیں ۔ وہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔ مسلم قوم کی نسل کشی جاری ہے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر مسلط کردہ جنگ کو ایک سال گزر گیا ۔مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کی طرف سے انھیں کوئی کمک نہیں پہنچی۔ مسلمانان عالم اگر ہوش میں آئیں اور باہم متحد ہو جائیں تو ایک زبردست اسلامی بلاک وجود میں آسکتا ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کی مسلم دنیا پھر سے حرم پاک کی مرکزیت کو تسلیم کرلے اور ایک نقطے پر اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دے ۔ عجب نہیں کہ ایک بار پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے۔ آئیے یوم اقبال کے موقع پر ان کے درس اتحاد و حریت کو تازہ کریں۔

کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے.