قصبہ برہان میں باصلاحیت اور بااخلاق نوجوانوں میں کاشان کا شمار بھی ہوتا ہے۔ کاشان جماعت نہم کا طالب علم ہے۔ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول برہان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں مذاہب کے لیے تعلیم عام تھی ۔ کاشان اچھے لوگوں سے دوستی کرنے میں تاخیر نہیں کرتا تھا۔
حسب معمول ایک روز اسکول جاتے ہوئے اس نے اہنے ہم جماعت روہت کو اداس پایا ۔ وہ روزانہ اس کو اداس دیکھتا تو دل میں یہ ارادہ کر لیتا کہ کسی روز اس سے گہری اداسی کا سبب پوچھوں گا۔ روہت کلاس میں واحد بچہ تھا جو ہندو دھرم سے تعلق رکھتا تھا۔اس کی ظاہری رنگت سیاہ ، جسامت کمزور ، قد چھوٹا اور بال سفید تھے ۔ پڑھائی میں بھی روہت نمایاں تھا مگر اس کی ظاہری حلیہ کو دیکھ کر اس کی قابلیت کو سب پس پشت ڈال دیتے اور کوئی اس سے دوستی کرنے پر آمادہ نہ ہوتا ۔
کاشان ایک روز اس کے پاس بیٹھا، خیریت دریافت کی اور طنزیہ انداز میں اداسی کی وجہ پوچھتے ہوئے کہا : ” کیا آپ کے ہاں مسکراہت مہنگی ہے ۔ روہت نے جواب میں کہا ” اس دنیا میں ہر شخص اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر جیتا بھی ہے اور مسکراتا بھی ہے ۔
کاشان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا : ہر شخص اپنے مفاد کے لیے اگر جیتا تو دنیا کا نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ۔ ہم سب بہت سے معاملات میں اپنے دھرم کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جب بات مسکراہٹ کی ہو تو یقیناً یہ کہوں گا کہ مسکراہٹ ایک ایسا نسخہ اکسیر ہے جو اپنی اور اردگرد موجود لوگوں کی پریشانیوں کو نگل جاتا ہے ۔
مسکراہٹ کا کوئی دھرم نہیں یہ فاصلے بڑھاتی نہیں مٹاتی ہے ۔روہت نے اتفاق کرتے ہوئے کہا :” جی درست کہا لیکن مسکراہٹ بھی بےسبب نہیں آتی لوگ ظاہری حلیہ کو دیکھ کر مسکراتے نہیں مذاق اڑاتے ہیں ۔ مخالف دھرم سے منسلک افراد کوتکلیف میں دیکھ کر ہی مسکراتے ہیں ۔“ کاشان نے روہت کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا : ” سب سے پہلے ہم سب انسان ہیں یہ انسانیت کا جذبہ ہمیں آپس میں جوڑتا ہے ۔آپ کی تکلیف پر اگر کسی کو خوشی ہوتی ہے یا میری تکلیف پر کوئی مسکراتا ہے تو یقیناً وہ بےحس ہے ۔
روہت کے چہرے پر مسکراہت بکھری اور کاشان کو گلے لگایا اور کہا: ” بےشک تمھاری باتیں تھارے اخلاق کی طرح صاف اور پاکیزہ ہیں ۔ اب سے حالات جیسے بھی ہوں میں اداسی کی بجائے مسکراہٹ کو ترجیح دوں گا اور کوئی اداس دکھائی دیا تو اس کے لبوں پر بھی مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کروں گا۔