سائرہ اکثر علامہ اقبال کا یہ شعرگنگنایا کرتی،،،
اے فاطمہ! تو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
اس کے بچپن کا کافی حصہ لیبیا میں گزرا۔ لیبیا کے شہر طرابلس میں رہتے ہوئےاکثر اسے اپنےخاندان کےساتھ صحرائی علاقوں میں سفرکرنا پڑتا یہ علاقےاسے بہت مسحور کرتےتھے۔ بچپن سےہی اسے ان صحراؤں سےلگاؤ سا پیداہوگیا ۔ بڑے ہونے پر اس نےکہیں پڑھا تھا کہ تمام انبیاءکرام عرب کے ریگستانوں میں تشریف لائے اوروہ سب فلسطیںن، مصر، عراق، یمن اورشام کےعلاقوں میں ہی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتےرہے۔ اس لئے سائرہ کوان صحراؤں سے اوربھی زیادہ انسیت پیدا ہوگئی۔
چودہ سالہ فاطمہ بنت عبدالله جوجنگ طرابلس میں زخمیوں کوپانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھی۔ اس کی زندگی، اس کی بہادری، اپنے دین سے اس کی محبت سب کچھ سائرہ کو بہت متاثرکرتاتھا۔ یہی وجہ ہےکہ اپنے کیریئراور شادی کےخواب دیکھنےکی عمرمیں وہ جہاد کےخواب دیکھتی۔ وہ تصور کرتی کہ وہ میدان جنگ میں ہےاور بھاگ بھاگ کرزخمیوں کوپانی پلارہی ہے۔ جس کوزیادہ زخمی حالت میں دیکھتی تو بھاگ کر طبی امداد کے عملےکوبلالاتی۔ کئی سال یہی کچھ سوچتے اس کی تعلیم مکمل ہوگئی اور پھر دنیا کے دستور کے مطابق اس کی شادی ہوگئی۔
شادی کےبعد اس نےاپنے خیالات اپنے شوہر کےساتھ شیئر کیےتو اس نے بات ہنسی میں اڑا دی۔ لیکن سائرہ بدستور اپنے خوابوں کےساتھ جیتی رہی۔ چندسالوں میں جب وہ دو بیٹوں کی ماں بن گئی تواس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کومجاہد بنائے گی۔
اس نے اپنی ایک قرآن کی ٹیچر کواپنے خیالات بتائےتو انہوں نےمشورہ دیا کہ ،، تم اپنے خیالات کوصفحہ قرطاس پر پھیلاؤ اپنے بچوں اور نسلِ نو کو مسلمانوں کی شاندار تاریخ کے بارے میں بتاؤ، بچوں کو کہانیاں سناؤ پھر ان کےاندر خودبخود مجاہد بننے کاشوق پیداہوگا۔ مسلمان تاجر، مسلمان ڈاکٹر، غرض مسلمان جس فیلڈ میں بھی جائے گا وہ اپنے کام میں رب کی رضا کو افضل رکھےگا، وہ مجاہد ہے، رب کی رضاکے لئے بےلوث کام کرنا ہی مجاہدہ ہے۔
سائرہ نے سوچا کہ” واقعی فاطمہ بنت عبداللہ نے کوئی جنگ تونہیں لڑی بس اپنے رب ک رضا کے لئے جنگ کے زخمیوں کی بےلوٹ خدمت کرتے کرتے شہید ہو کر امر ہوگئی۔
مومن جب اپنے دین کےلئے کام کرتا ہے تووہ مجاہد ہوتا ہے۔ سب مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھیں اور ان کو ادا کریں تو مسلم معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان ماں اپنے بچوں کو دین کا فہم دے۔ لیکن یہ تب ہوگا جب مائیں خود دین کو سمجھتی ہوں۔ اس کے لئے پہلے مسلمان ماؤں کی تربیت ضروری ہے۔
سائرہ نے قلم اور زبان دونوں سے جہاد کرنے کافیصلہ کیا اور بچوں سےپہلےان کی ماؤں کی تربیت کاآغاز کیا کہ’’بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے‘‘۔