”ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔“ غازی علم دین یوم شہادت 31 اکتوبر 1929ء
علامہ اقبال کے یہ تاریخی الفاظ جن کو سنہری حروف سے لکھا جانا چاہیئے۔ 19 سالہ بڑھئی کے بیٹے نے جس جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کو اللہ تعالٰی نے اتنا پسند کیا کہ آج ” 95″ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن یہ واقعہ اپنی پوری آب و تاب ، محبت و احترام کے ساتھ اس شہ ید کی یاد دلاتا ہے۔امت کا ہر مسلمان اس واقعہ سے اپنے ایمان کو تازہ اور نبی پاک صلعم کی حرمت پہ مر مٹنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پیارے نبی مہربان کے دور نبوت میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جس پہ نبی مہربان نے صحابہ سے فرمایا کہ “کون اس گستاخ کی خبر لے گا اس میں ایسی گستاخ عورتیں بھی شامل تھیں جنہیں صحابہ نے قتل کیا اور نبی پاک نے فرمایا کہ ان کا خون رائیگاں ہے یعنی اس میں کوئی آپس میں نہ ٹکرائے۔”
پیارے نبی کریم محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی سزا موت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ رحمت للعالمینﷺ کی ذات پہ کوئی بھی حرف زنی بالکل برداشت نہیں کی جائے گی ۔ مسیحیت میں جو لوگ گھڑے ہوئے ہوئے خداوں کا انکار کرکے ایک خدا کو مانتے انہیں بادشاہ کا غدار کہا جاتا اور اس کی سزا رجم تھی۔ رسالت مآبﷺ اللہ کے رسول و پیامبر ہیں قرآن کے نظام کو عملی جامہ پہنانے والے اور ان کی سنت دین میں آئینی حیثیت رکھتی ہے ۔وہ اللہ کے نمائندہ خصوصی ہیں انسانیت کے محسن ہیں ان کی شان میں گستاخی ایسا فعل ہے کہ اس گستاخ کی سزا موت سے ہرگز کم نہیں ہونی چاہیئے۔
غازی علم دین کی زندگی میں تقسیم ہند سے پہلے انڈیا میں ہونے والے ایک واقعہ نے ہلچل برپا کردی۔ 1923 میں ایک انتہا پسند ہندو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک نہایت گستاخانہ کتاب تحریر کی۔ فرضی نام سے لکھی گئی اس کتاب کو لاہور کے ایک ہندو پبلشر راجپال نے شائع کیا۔
گستاخی کے حوالے سے اس وقت کوئی قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے راجپال کو رہا کردیا گیا ۔اس کتاب میں حضرت محمد ﷺکے بارے میں نہایت نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی ۔ ایسے میں غازی علم کے جذبہ ایمانی اور عشق رسول نے جوش مارا۔لاہور کی تاریخی وزیر خان مسجد کے سامنے مسلمانوں کا احتجاجی مظاہرہ تھا مسجد کے پیش امام نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ”مسلمانوں شیطان راجپال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے بری کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔“ امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے قریبی دوست سے کیا۔ وہ بھی راجپال کو اس گستاخی کا مزا چکھانا چاہتا تھا۔دونوں میں تین بار قرعہ اندازی ہوئی تینوں بار قرعہ غازی علم دین کے نام نکلا ۔ چنانچہ 6 ستمبر 1929 کو غازی علم چھرا لے کر راجپال کی دکان پہ پہنچا اور اس کے آتے ہی اس پہ وار کرکے موقع پہ ڈھیر کردیا۔ عدالت میں کیس چلا قائد اعظم نےکیس لڑا۔لیکن جرم ثابت ہونےکی بناء پہ عدالت نے غازی علم دین کو موت کی سزا سنائی ۔ غازی علم دین نے کہا کہ مجھے اس قتل پہ کوئی ندامت نہیں بلکہ مجھے فخر ہے اور یوں غازی علم دین شہادت کے بلند ترین رتبہ پہ فائز ہوئے۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺ کی ناموس پہ کٹ مرے اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔
آج پاکستان میں” ناموس رسالت کے قانون ” کو ختم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے لیکن پاکستان کے مسلمان یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے اس پہ اپنی جانیں نچھاور کردیں گے لیکن نبیﷺ کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیں گے اس قانون کا ہونا ہی نبی مہربان کے دشمنوں کو لگام دیئے ہوئے ہے جو بھی اس قانون کو ختم کرنے کا سوچے گا وہ اللہ و رسول کا غدار قرار پائے گا ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں