آج دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے انہیں اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کا انتہائی اہم اور تشویشناک موڑ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔عالمی سطح پہ جو تبدیلیاں نظر آرہی ہیں وہ ” بزم میں اک نئے دور کا آغاز ہے ” کی جو خبر تقریبا 90 ، 95 سال پہلے علامہ اقبال نے دی تھی وہ سچ ہوتی نظر آرہی ہے۔کمیونزم ،سوشلزم کی شکست کے بعد امپیریل ازم (مادیت پرستی) کا زوال بھی شروع ہوچکا ہے۔
انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل و نسل کشی کی انتہائی بہیمانہ و وحشیانہ تصاویر و وڈیوز نے پچھلے ایک سال میں دنیا کو وہ کچھ دکھایا ہے جس کا تصور کبھی انسانیت نہیں کیا تھا۔ مال و دولت کے نشے نے اور طاقت کے بگڑتے توازن نے پوری دنیا کے انسانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ اس وحشت کا رخ کبھی بھی اور کسی بھی جانب مڑ سکتا ہے ۔ ان حالات نے دنیا بھر کے دانشوروں اور عوام الناس کو یقینا بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا ہے۔ اسی لئے مسلم ممالک سے زیادہ یورپین ممالک میں عوام اس درندگی کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔
ان حالات میں مسلم ممالک کا کردار اور خصوصا اسلام کے نام پہ وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کہ ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے ایک سال قبل پاکستان ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پہ جگمگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ۔۔۔ چاروں موسم دیئے۔۔۔ پہاڑوں کی صورت میں معدنیات کے خزانے رکھے۔۔۔۔ دریاؤں کی صورت میں پانی کا وافر ذخیرہ۔۔۔۔ سونا اگلتی زمینیں ۔۔۔ وسیع و عریض ٹھاٹھے مارتا سمندر۔۔۔ محنتی و جفاکش عوام ۔۔۔۔ ہنر مند، ذہین و قابل نوجوان ۔۔۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد تقریبا 64 فیصد ہے جوکہ کسی قوم کیلئے بیش بہا قیمتی سرمایہ ہے۔ پھر اس پہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت عطا کی جو کہ کسی اور اسلامی ملک کو حاصل نہیں ہے۔
ملک کے بعض ماہرین معاشیات کے مطابق صرف سات سال میں ملک سیاسی و معاشی بحرانوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ (ترجمان القرآن اشارات اکتوبر ) ملک کے نوجوان مایوس ہو کے سرزمین وطن کو (جو کہ ماں کی حیثیت رکھتی ہے) چھوڑ کر دیار غیر جاننے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔
اس وقت ملک ایک دوراہے پہ کھڑا ہے ۔فیصلہ کن موڑ ہے۔ دشمن کی نظریں اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پہ لگی ہوئی ہیں۔ دو صوبوں میں انتشار و امن و امان کی بگڑتی صورتحال،، آئینی ترامیم کے نام پہ آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے کی پلاننگ تاکہ آہستہ آہستہ قرآن و سنت پہ مبنی شقوں پہ بھی شب خون مارنے کی راہ ہموار ہو عوام روزانہ آئینی ترامیم کا نوحہ سنتے سنتے اتنے بیزار آجائیں کہ جب اساس پہ حملہ کیا جائے تو عوام کی عدم دلچسپی و ناواقفیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن و سنت سے ہٹ کر قانون سازی کی جاسکے جو کہ آئین کی رو سے فی الوقت نہیں ہوسکتی کیونکہ دستور پاکستان کہتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی ایسا قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا جو کہ قران و سنت کے خلاف یا اس سے متصادم ہوگا ، ناموس رسالت کا قانون ودیگر دفعات مثلا دفعہ 62 ، 63 جیسی اہم دفعات پہ خاموشی سے حملے کئے جا سکیں۔ ایسی چیزوں پہ میڈیا و دانشور بھی چپ سادھ لیتے ہیں۔
ایسے وقت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب عظیم مبلغ و داعی اسلام کی پاکستان آمد جہاں خوشی کا باعث و امید افزا ہے وہیں افسوس و دکھ کا باعث بھی ہے۔ کچھ نادان و ناسمجھ اور اسلام سے ناواقف یا تعصب رکھنے والے عناصر نے قوم کی دینی و اخلاقی صورتحال کو بھی کھول کے رکھ دیا ہے گو کہ تقریبا تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے ( سوائے چند ایک کے) بھرپور انداز میں ان کی پذیرائی کی ان کے شاگردوں نے بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ ان کی نشستوں میں شرکت کی ۔
لاہور کی بادشاہی مسجد میں بھی عوام کے جم غفیر نے گھنٹوں نظم و ضبط کے ساتھ ان کے خطابات سنے سوال و جواب کی نشست میں ادب وآداب کو بہت حد تک ملحوظ رکھا ۔
لیکن حکومتی سطح پہ جو کام ڈاکٹر صاحب کے ذریعے لیا جاسکتا تھا اور ابھی بھی لیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ بہت بڑے پیمانے پہ پاکستانی عوام (مسلم و غیر مسلم ) کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔ حکومت و اپوزیشن، اراکین اسمبلیز، سرکاری عہدیداران، فوج، عدلیہ، میڈیا تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی،اسلامی نقطہ نظر کے مطابق پاکستان میں قانون سازی، خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے حوالے سے رہنمائی، معاشی و معاشرتی مسائل کا حل جاننے کو موضوع بنا کر پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے پہ لیکچرز رکھوائے جاتے کیونکہ وہ مستقل اپنے لیکچرز کے دوران یا سوالات کے جوابات میں کچھ امور پر توجہ دلاتے رہے ہیں مثلا ایک سوال پہ کہ آج یہود باوجود اس کے کہ قرآن کہتا ہے وہ لعنت وغضب، ذلت و مسکنت کے مستحق ہیں پھر آج کیوں دنیا پہ رول کررہے ہیں۔۔۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہودیوں کی معاشی پالیسیوں پہ سیر حاصل گفتگو کی اور پھر سود کو پوری دنیا میں پھیلا کر جو نحوست پھیلائی اس سے چھٹکارے کے طریقے بھی مختصرا بیان کئے ۔ پاکستان کے مسائل کی وجوہات پہ بھی روشنی ڈالی اور حل بھی بتائے ۔۔ تو کیا حکومت جس کے وہ مہمان ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتی نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا پہ ان کا جو مضحکہ بنایا جارہا ہے جس کا دل چاہ رہا ہے وہ اس سرکاری مہمان کے ساتھ سلوک کررہا ہے اینکرز، یوٹیوبرز،و دیگر جہلائے جاہلیت اپنا بغض و عناد جو کہ دراصل انہیں اسلام کے اصول و قوانین سے ہیں ۔۔۔
ہر ایک اپنے اپنے انداز سے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور ان کے فالوورز اس سے متاثر ہو کے سوشل میڈیا پہ بغیر سوچے سمجھے آگے بڑھا رہے ہیں وہ نہیں سوچ رہے کہ اس طرح وہ انجانے میں اسلام کے احکامات پہ نکتہ چینیاں کر رہے ہیں۔اس سب پہ حکومت کی خاموشی یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس نے اس عظیم داعی و مبلغ کو (جس کی غیر مسلم تک عزت کرتے ہیں ایک دنیا اس کی عظمت کی معترف ہے ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ اللہ نے اس کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا) شائد اسی لئے پاکستان آنے کی دعوت دی کہ پاکستان کا یہ تاثر لے کے وہ یہاں سے جائیں کہ اس قوم کا اب اللہ ہی حافظ ہے یا جو ملک اسلام کے نام پہ بنا اس ملک میں اسلام اور اسلام پسندوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔
آج امت مسلمہ کو ملت واحدہ بننے کی اشد ضرورت ہے تمام فرقوں و پارٹیوں سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا ۔ تمام عصبیتوں و برادریوں کو پس پشت ڈالنا ہوگا، عرب و عجم، شیعہ سنی کی تفریق کو بھلا کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر دشمن کے سامنے سیسیہ پلائی دیوار بننا ہوگا۔