چند آسان نیک اعمال جن کی بہت فضیلت ہے۔
دوسروں کے لئے دعا کرنا :
جس طرح اپنی حاجات کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ اسی طرح اپنے عزیز اقرباء ، دوست احباب اور پوری امت مسلمہ کے لئے دعا کرنے کی بہت فضیلت ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ “جو مسلمان اپنے کسی بھائی کے لئے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے ۔ تو فرشتے اس کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں تم کو بھی ویسی ہی بھلائی ملے “
لہٰذا جس کسی مسلمان کے بارے میں علم ہو کہ وہ کسی مشکل , پریشانی میں ہے یا اس کو کوئی ضرورت درپیش ہے تو اس کے حق میں دعا کرے ۔”
قرض دار کو مہلت دینے اور قرضہ معاف کرنے کے فضائل:
قرض دار کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دینا یا قرضہ معاف کردینے کی بہت فضیلت ہے ۔ کچھ لوگ کسی ضرورت کے تحت مجبور ہوکر قرض لیتے ہیں ۔ مگر پھر ادائیگی کے اسباب نہیں بن پاتے ۔ قرض لینے والے کو کوشش کرنی چاہیئے کہ جلد قرضہ واپس کردے۔ اسی طرح قرض دار کو مہلت دینے والے کے لئے اجر و ثواب ہے ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ترجمہ:”ور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلاہے اگر جانو”
” یعنی تمہارے قرضداروں میں سے اگر کوئی تنگ دستی کی وجہ سے تمہارا قرض ادا نہ کر سکے تو اسے تنگ دستی دور ہونے تک مہلت دو اور تمہارا تنگ دست پر اپنا قرض ی معاف کردینا تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اگر تم یہ بات جان لو کیونکہ اس طرح کرنے سے دنیا میں لوگ تمہاری اچھی تعریف کریں گے اور آخرت میں تمہیں عظیم ثواب ملے گا
لوگوں کو معاف کردیں:
کبھی کسی شخص کی کوئی بات یا عمل اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ انسان اس کو معاف نہیں کرپاتا۔ حالانکہ دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں معاف کرنے کی بہت فضیلت ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ” پس معاف کردو اور درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللّٰہ تمہیں معاف کردے , اور اللّٰہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ” ( سورہ النور)
حدیث میں بھی اس کا درس ملتا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کردو اللہ تمہیں معاف کردے گا ( مسند احمد)
قرآن پاک پڑھانا:
آپ قرآن پاک سیکھ کر دوسروں کو قرآن کی تعلیم دینا اس کی بہت فضیلت ہے ۔ قرآن پاک کو اچھی نیت سے تجوید کے ساتھ پڑھانا یقیناً سعادت کی بات ہے،
حدیث کا مفیوم ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:” بلاشبہ تم میں سب سے افضل وہ ہے، جس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور دوسرے کو اس کی تعلیم دی۔”( بخاری شریف)
صلح کروانا:
جب کبھی مسلمانوں کے درمیان ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروادیں اس کی بہت فضیلت ہے ۔ بعض اوقات شیطان دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ ان لوگوں نے صلح پر آمادہ ہی نہیں ہونا لہٰذا انہیں سمجھانا بیکار ہے۔
اس خیال کو ذہن سے جھٹک کے آپ اپنی پوری کوشش کریں.
صلح کروانا حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اللّٰہ عزوجل نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے۔ پارہ26 سورۃ الحجرات کی آیت نمبر9 میں اللہ عزوجل کا فرمان عالی شان ہے۔ (ترجمہ : ’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرائو‘‘۔
وقت کو نیک کاموں میں صرف کریں:
اپنے وقت کو نیک کاموں میں صرف کرنا اور مصروفیت ہو ، سفر میں ہوں یا کوئی کام کررہے ہوں ۔ زبان پر ذکر الٰہی جاری رہے ۔ یہ وقت کا بہترہن استعمال ہے۔
ہماری زندگی کے لمحات انمول ہیرے ہیں اگر ان کو ہم نے ضائع کردیا تو حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا۔ ہمیں چاہئے کہ وقت کی قدر کریں۔ وقت ایک ایسی دولت ہے جس کے درست استعمال سے انسان دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتاہے۔
وقت کی اہمیت کے متعلق پیارے آقا صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : دونعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں ، ایک صحت اور دوسری فراغت۔ (بخاری ، 4 / 222 ، حدیث : 6412)
دعا ہے ” یا اللّٰہ ہم سب کے وقت میں برکت عطا فرما اور ہمیں اس کو صحیح مصرف میں لانے کی توفیق عطا فرما۔
درخت لگائیں:
درخت لگانا نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔ درخت کی چھاوں جہاں موسم کی تمازت سے سکون و ٹھنڈک کا احساس دیتی ہے ۔ وہیں اس کا پھل انسانوں و جانوروں کی غذا کا سبب بنتا ہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے۔“(صحیح بخاری)
نیکی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا:
نیک کاموں کی طرف بلانے ، ترغیب دینے کی بہت فضیلت ہے ۔ اپنے حسن اخلاق سے نرمی کے ساتھ نیکی کا حکم۔دینا اور نیکی کی طرف بلانے کا بہت اجر و ثواب ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی ہدایت کی طرف بلائے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو ملے گا جس نے اس کی اتباع کی، اور اس سے ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جو کسی گمراہی کی طرف بلائے تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کو ہو گا” «سنــن ابــن ماجہ -206»
جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے(مسلم)۔