ایک خبر نظروں سے گزری کہ کتب میلے میں کتابوں کے اسٹالز پر نہیں بلکہ کھانے پینے کے اسٹالز پر رش تھا۔
کالج میں منعقد اس کتاب میلے میں صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ 1200 شوارمے ،800 بریانی کی پلیٹیں، 900 برگر ،1800 کوکا کولا فروخت ہوئیں ، مجھے زیادہ تعجب نہیں ہوا،کیونکہ اب کتب بینی جو لوگوں کا ایک مشغلہ تھا اب سمجھو ختم ہی ہوتا گیا ہے کتابوں کی صحبت میں رہنے والے لوگوں کا انداز بیان اور طریقہ ہی منفرد تھا اب ہم سب کے ہاتھوں میں کتاب کے بجائے موبائل اگیا ہے۔
ویسے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا جارہا ہے ہماری عادات ،فیشن، زندگی گزارنے کا طریقہ، جو ہمارے والدین کے زمانے میں تھا وہ ہمارے زمانے میں نہیں تھا جو ہم نے دیکھا اس سے آج ہمارے بچے محروم ہو گئے ہیں غرض کہ زندگی کا تمام طریقہ کار ہی بدل گیا ہے،اماں پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن بابا کی صحبت میں انہوں نے پڑھنا سیکھ لیا تو گھر میں آنے والے اخبارات اور رسائل ہی نہیں بلکہ ہم بہن بھائیوں کی کتابیں بھی ہم سے پہلے اماں کے ہاتھ میں نظر آتی تھی لازمی طور پر اس کا اثر ہم تک تو پہنچنا ہی تھا۔
اخبار کی حالت تو پوچھیں ہی نہیں اس کا ایک ایک صفحہ الگ کرکے ہم اپنی دسترس میں لے لیتے بابا ہمارے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے ماہانہ مختلف رسالے اور میگزین منگواتے جو ہمارے فرصت کے لمحات کے بہترین ساتھی تھے ،پھر یہ عادت کافی حد تک ہمارے بچوں میں بھی منتقل ہوگئی لیکن اب یہ چیز مجھے نظر نہیں اتی ، بلکہ میں نے اپنے آس پاس بھی نظر دوڑائی تو بڑی مایوسی ہوئی ،نہ جانے اگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟