دھنک رنگ

انسان بہت جلد باز ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ،،، بے شک انسان بڑا جلد باز ہے، بے صبرا ہے، جب اسے خوشی ملتی ہے تو وہ اس سے نہال ہو جاتا ہے ہمیں بھول کر شرک کرنے لگ جاتا ہے اور جب اسے کوئی رنج پہنچتا ہے تو وہ شکوہ کناں ہو جاتا ہے کہ اللہ نے مجھے ذلیل و خوار کر دیا۔

فطرت انسانی میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ مشکلات اور پریشانیوں سے وہ فوراً گھبرا جاتا ہے۔ زندگی میں جب دشواریوں کی تاریکیاں آتی ہیں تو حواس باختہ ہو کر اللہ سے شکوہ کرنے لگ جاتا ہے۔ کم حوصلہ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ بارش کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے، رات کے بعد صبح لازمی آتی ہے۔

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دن اور رات، گرمی، سردی، بہار، خزاں طلوع وغروب آفتاب کا ہونا، چاند کا گھٹنا بھڑنا، یہ سب قدرت کے حسین ترین اختلافات ہیں۔ یکساں قسم کے موسم اور درجہ حرارت سے طبیعت بیزار ہونے لگتی ہے۔

اللہ تعالی نے ہر چیز کو بہت حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ زندگی میں یہ اتار چڑھاؤ ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایک طرح کی زندگی سے جو خوشیوں اور آسائشوں سے بھرپور ہو انسان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ یہ پریشانیاں، مصیبتیں ہمارے زندگی کے بحر میں تلاطم کا کام کرتی ہیں۔ جب لہریں بپھر کر تھمتی ہیں تو وہ ساحل پر بے پناہ اور بیش بہا قیمتی موتی چھوڑ جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے زندگی میں زندگی کی رمق قائم رکھنے کے لیے یہ بات شعر کی صورت میں بیان کی ہے۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے لہو کو گرم رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ مشکلات نہ آئیں تو ہم اپنے ربّ کو کس طرح سے یاد کریں۔ خوشی کے بعد غم نہ ہوں تو خوشی کی اہمیت معلوم نہ ہو۔ بیماری کے بعد صحت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔کسی قیمتی چیز کو کھو دینے کے بعد ہی اس کی اہمیت، اس کے واپس ملنے کا انتظار اور خوشی ہوتی ہے۔

زندگی سے اگر یہ تمام اتار چڑھاؤ نکال دیے جائیں تو زندگی سے اس کی راعنائی اور خوبصورتی نکل جائے گی۔ یہ سب آزمائشیں ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہماری تراش خراش ہمارے کردار کی مضبوطی ان مشکلات سے گزر کے ہی انسان سیکھتا ہے، اعصاب کی مضبوطی آتی ہے۔

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

زندگی روشنی ہے اور روشنی ایک رنگ کی ہوتی ہے، مگر یہ سفید رنگ کی جب ”مخروط مستوی“ سے منعکس ہوتی ہے تو سات رنگوں میں بکھر جاتی ہے۔ یہ سات رنگ اسی روشنی کا حصہ ہے، یہ سات رنگ زندگی کی میں آنے والے تمام ادوار کی عکاسی کرتے ہیں۔

کبھی زندگی ’’سبز‘‘ رنگ کی طرح کِھلی کِھلی ہوتی ہے، کبھی اس میں سرخ رنگ جیسی تندی و تیزی آتی ہے، کبھی آسودگی کے دن نیلگوں آسماں جیسے بھی ہوتے ہیں۔ اور کبھی گہرے ”ارغوانی“ رنگ کے جیسے یاسیت چھا جاتی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی روشنی سے منعکس ہونے والے سب رنگ ہیں اور زندگی انہی رنگوں کا نام ہے۔ اگر زندگی سے یہ رنگ نکال دیے جائیں تو زندگی روکھی اور پھیکی ہو جائے۔

اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کے لیے امید اور یقین کی ایک ہی کرن کافی ہے۔ اور وہ روشنی کی کرن ہم خود ہیں۔