قدس کے باسی

وہ جو استقامت کی داستانیں رقم کر رہے ہی، بے خوف و خطر ہوکر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، جو ہنستے چہروں کے ساتھ موت کو قبول کر رہے ہیں، جو بزدلوں کی طرح چھپ کر بیٹھنے کے بجاۓ مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جو موت کو اپنے سامنے رقصاں دیکھ کر بھی گھبرا نہیں رہے بلکہ شہادت کا تمغہ سینہ پر سجانے کے لیے بے تاب ہیں ۔ جو ہاتھ پاٶں کٹ جانے کے باجود بھی میدان سے بھاگ نہیں رہے بلکہ شیر کی نگاہیں لیے دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ میں آنکھ ڈال کر لڑ رہے ہیں وہ قدس کے باسی ہیں۔ وہ اس ارض مقدس کے باسی ہیں جہاں زندگی کے بجائے شہادت کی موت کی تمناٸیں کی جاتی۔

یہ بہادر باسی اُس پاک سرزمین کے باشندے ہیں جہاں بچپن سے ہی ڈرنے کے بجائے بہادری سے لڑنا سکھایا جاتا۔ جہاں اپنی زمین کے لیے، اپنے دین کے لیے ڈٹے رہنا سکھایا جاتا۔ جہاں کی ماٸیں اپنے لخت جگروں کو خون کی ہولی میں کھیلتا دیکھ کر ماتم نہیں کرتیں بلکہ اللہ رب العزت کی شکر گزار ہوتی ہیں کہ انکی اولاد کو شہید کا درجہ ملا۔

جہاں کےماں باپ اپنی اولاد کو دنیاوی کامیابی کے گر نہیں سکھاتے بلکہ آخرت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ واللہ کیسا ایمان کہ تین بیٹے شہید اور چوتھے کے شہید ہونے کی بھی آرزو سینے میں جوان رکھتے ہیں۔

جو لٹے پٹے، کٹے پھٹے جسموں کے ساتھ بھی حق کا کلمہ بلند رکھتے مگر حوصلے پست نہ ہونے دیتے۔ کیسا اعلیٰ عقیدہ وراثت میں پایا ہے کہ جان چلی جائے مگر باطل کامیاب نہ ہو۔ دشمن فاتح نہ ہو۔ اسلام کا پرچم پست نہ ہو۔

ایمان کی طاقت سے سرشار سالوں سے حق کی سربلندی کے لیے، ارض مقدس کی حفاظت کے لیے، استقامت کی مثالیں قاٸم کیے جارہے۔ اپنے جانثار قاٸدین کی جداٸی سہے جارہے، باوجود اس کے امت مسلمہ کی بےحسی ان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی مگر اللہ پر ایمان اور آخرت میں ڈھیروں اجر و ثواب کی امید لیے مسلسل میدان میں کمر بستہ، آزادی کی جنگ میں مصروف عمل اور باطل کا پرچم سرنگوں کرنے کے لیے جذبہ ایمانی سے لبریز دل و جان لیے قدس کے باسی دنیا کو بہادری و شجاعت کا ایک نیا سبق پڑھارہے۔

قدس کے باسی حقیقت کو دنیا پر آشکار کر رہے کہ مال و وساٸل اور ہتھیاروں کی فراوانی ہی کامیابی کی ضامن نہیں بلکہ مرد مومن کا اصل ہتھیار تو اس کا بلند ایمان ہوتا ہے جس کا نتیجہ اللہ کی مدد ونصرت کی شکل میں اس کو حاصل ہوتا ہے اور زمانہ یہ دیکھتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور تاریخ بھی ایسے ہی سورماٶں کی داستانوں سے روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔