ہمارے معاشرے میں آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے کہ کسی نا کسی بچی کی عصمت دری کی گئی،ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی بچیاں محفوظ نہیں۔
پاکستان میں مخلوط نظام تعلیم اب عام ہے۔جس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ان خرافات سے محفوظ رکھنے کیلئے سب سے پہلے ’’مخلوط نظام تعلیم‘‘کوختم کردینا چاہئے،لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسکول اور یونیورسٹیاں بنائی جانا چاہیے، حتیٰ کہ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں پرنسپل سے لے کر چوکیدار تک کا تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہونا چاہیے۔
آئے روز ہونے والے اس طرح کے واقعات پرہم کتنا ہی لکھیں،لیکن ہمارا معاشرہ بدلے گا اور نہ ہی ہماراکرپٹ نظام خواتین کی عزت کا تحفظ کر پائے گا،ہمارے معاشرے میں عورت گویا تماشہ بن کر رہ گئی ہے۔
سب سے زیادہ باعث ِ شرم یہ بات ہے کہ جب بھی ایسا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اکثر لوگ بالخصوص میڈیا ان واقعات کو کیش کروانے میں تمام تراسلامی و اخلاقی حدود پار کر جاتے ہیں، لڑکیوں کی عزت کو’’انصاف‘‘کے نام پر مزید اْچھالا جاتا ہے۔گویا ہمارے معاشرے میں خواتین کی کوئی عزت نہیں۔
مظلوم کو انصاف کی فراہمی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،کسی بھی سانحے کے بعد لوگ مجبور ہوجاتے ہیں، انصاف کیلئے سڑکوں پر آجاتے ہیں، قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں، جیسا کہ پنجاب کالج میں طالبہ سے مبینہ طور پرزیادتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔گو کہ حقیقت واضح نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اور اے ایس پی شہربانو نقوی سمیت پولیس نے اس واقعے کو ’’جھوٹ‘‘قرار دے دیا ہے، مگر اس سانحہ کو بنیاد بنا کر کالج ہذاء کے طلبہ نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،پولیس کا حق کیلئے آواز اٹھانے والے طالب علموں کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم و جبر سوالیہ نشان ہے؟
پنجاب کالج کے سانحے کی طرح اب تک ’’ریپ‘‘کے بیسیوں کیس رپورٹ ہو چکے ہیں لیکن سبھی کیسز میں حکومت کی کارکردگی سے عوام وخواص بخوبی واقف ہیں۔ ایسے واقعات میں ملوث درندہ صفت لوگوں کو نشانِ عبرت بنائے بغیر ہم قوم کی بہو،بیٹوں اور بچوں،بچیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے۔مجرم چھوٹا ہو یا بڑ ا وہ جانتا ہے کہ موجودہ نظام میں سقم کی بدولت اور بااثر افراد کی سرپرستی اور نوٹو ں کی چمک سے وہ تمام احتسابی عمل اور سزا سے بچ سکتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو کوئی خوف نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ درندہ صفت لوگوں سے لڑکیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے انہیں اپنی جان و عزت کی حفاظت کیلئے ہرممکن تربیت دی جائے کہ وہ ایسے لوگوں سے خود کوبچانے کی صلاحیت رکھیں۔۔اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔
دوسری جانب معاشرے کو منظم طریقے سے چلانے اور عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ قانون کی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے ریاستی اداروں کی طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔اور سب سے پہلے ریاستی اداروں میں کام کرنے والوں میں احتسابی عمل کو یقینی بنایاجائے۔