ایک سال ہوگیا

شادی کا ایک سال مکمل ہو تو ڈھول باجوں کے ساتھ جشن منایا جاتا ہے۔ زندگی کا ایک سال کم ہو جائے یعنی سالگرہ تو دوستوں کے ساتھ ہلّے گلّے کو تو گویا دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی کی موت کو ایک سال ہو جائے تو رسم دنیا خوب نبھائی جاتی ہے ۔ خوشی ہو یا سوگ ہم کسی موقعے کا ہاتھ سے جانا گوارہ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یاداشت کھنگالیں تو بھولے بھٹکے کچھ یاد آتا ہے؟؟ ایک مسئلہ جس کو شروع ہوئے ایک سال ہو گیا۔

ظلم کو ایک سال ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ مسلسل ایک سال سے بچوں کی آہ و بکا سنتے، عورتوں کی دل دہلا دینے والی پکار، جوانوں کی جوانیاں لٹتے، بدن کے ٹکڑے جگہ جگہ سے ملنے پر کیا کرنا چاہیے؟ نسل کشی کو ایک سال ہو جائے تو کیا عمل یقینی ہونا چاہیے؟ بھوک سے بلکتے بچے اور مفلسی اس قدر بڑھ جائے کہ موت آن گھیرے تو کیا کرنا چاہیے؟ 365 دن سے مسلسل ایک قوم بارودی مواد کے حصار میں ہو تو امت کا کیا ردعمل ہونا چاہیے ؟ یہ سوال کہ کیا کرنا چاہیے اہل فلسطین سے نہیں امت مسلمہ کے ان اشرفیہ اور اعلیٰ عہدے داروں سے ہے جو ضمیر کا سودا کیے اندھے بہرے بنے بےحسی کے تخت پر براجمان ہیں، ان سے جو تاریخ میں منافقت کی تحریر رقم کر رہے ہیں۔

یہ سوال مجھ سے اور آپ سے ہے۔۔۔ ایک سال ہو گیا کیا کرنا چاہیے تھا اور اگر کچھ بھی کرنے کا حق ادا نہیں کیا تو کیا اب ردعمل ضروری ہے ؟ بدن بغیر حرکت کے تھکاوٹ کا شکار ہیں، اکتاہٹ چہرے پر عیاں ہے اور بائیکاٹ تو بس نام کا ہو رہا ہے اور رہا سہا بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ وہ ظالم ! تو نہیں تھکے ۔ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بناتے، انکی آنکھوں کے جگنوؤں کو بےنور کرتے ۔ وہ تو سانس لینے تک کو نہ رکے ۔۔ 365 دن بغیر کسی توقف کے فلسطینیوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا گیا۔ تاریخ کے پَنّوں میں درج رہنے والی داستان جس میں 57 مسلم ممالک ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے، دنیا کے نشے میں مست امت مسلمہ کی تباہی کا منظر دیکھ رہے تھے۔ اب تو اس پر ختم دلوا کر ایک سال کا سوگ بھی منانا ناممکن ہے.

اخر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ وہ سوال جو شاید ایک مسلمان کے منہ سے سننا ناممکنات میں سے ہوتا اگر آج وہ “امت وسط” کے مقصد سے آشنا ہوتی.. لیکن افسوس صد افسوس! ہم اصول بندگی کو اپنے دائرۂ زندگی سے نکال کر محض اسلام کا ٹیگ چسپاں کرنے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ خلیل اللہ کو جب آگ میں پھینکا گیا تھا تو ایک ابابیل اپنی چھوٹی سے چونچ میں پانی بھر کر آگ پر پھینک رہی تھی۔ سوچنے کی بات ہے نا کہ محض چند قطرے کیا اس آگ کی بھٹی پر اثر کر سکتے تھے ؟ پوچھنے پر ابابیل نے جواب دیا کہ روز محشر جب حساب کتاب کا وقت آن پہنچے گا تو میں ان لوگوں میں شمار ہوں گی جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے کچھ کیا۔ سبحان اللہ!! وہ ایک چھوٹی سے مخلوق ہو کر خالق کی رضا حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھی اور آج سب سے اعلیٰ مخلوق، حیوانوں میں سب سے اعلیٰ حیوان، انسان اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہو کر بھی یہ حیلے بہانے بنائے اپنی ذمہ داری سے غافل ہے۔

ہم اس سوچ پر اٹکے ہوئے ہیں کہ بس دعا کافی ہے۔ اس سے زیادہ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے یا ہم اس سے زیادہ کچھ کر بھی سکتے ہیں ؟ راہ حق کا علمبردار اپنے ہر لفظ اور جملے کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اسی راہ میں صرف کرتا ہے۔ اپنا علم، عمل اور قلم تکمیل مقصد میں لگا دینا ہمارا مقصود ہونا چاہیے۔

ہم چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔۔ ایمان پر دل کی ثابت قدمی اور امت سے ہمدردی اور دل سوزی شرط ہے۔

•» بائیکاٹ کو واپس اسی جذبے سے دوبارہ شروع کریں۔ جہاد بالنفس

•» آگاہی (awareness) پھیلائیں۔ جہاد بالسان

•» اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لوگوں کو معلومات دے کر اپنا کردار بخوبی ادا کریں۔

•» ڈونیشن۔ جہاد بالمال

•» قلم کے ذریعے آواز بلند کریں۔ جہاد بالقلم

•» اپنی حکومت پر اس قدر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس بربریت کو ختم کروانے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔ دنیا میں انقلاب انہی الفاظ اور قلم کا نتیجہ ہے

•» اور آخری اور بہترین درجہ۔۔ جہاد بالقتال کی راہیں ہموار کریں۔

ایک مسلمان ہر لمحہ اپنے مقصد “امر بالمعروف ونہی عن المنکر” کیلئے غور و فکر میں لگا رہتا ہے۔ آج حق کیلئے آواز اٹھانا، نظام باطل کا قلع قمع کرنا اسی مقصد کا جزو ہے۔ اپنے بہن بھائیوں کو مت بھولیں ورنہ روز محشر احساس ندامت امت مسلمہ کو گھیرے میں لیے ہوگا اور جنت سے بھی محروم رہ جائیں گے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو جسد واحد کی طرح متحد کر دیں اور ایک دوسرے کے رفیق بنا دیں۔۔” اللہم انصر المجاہدین فی فلسطین”۔