ہم بہن بھائی اب سب اپنی زندگیوں میں مگن ہیں۔ کل جب سب جمع ہوئے تو بچپن کا ایک واقعہ جو مجھے نہیں بھولتا میں پھر دہرا رہا تھا، کہ ہمارے بڑے بھیا کی محبت بڑی لازوال تھی۔شام کو باہر کھیلتے ہوئے مجھے شدید چوٹ لگی اور خون بہنے لگا تو بڑے بھیا نے پریشانی میں سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا، مجھے گود اٹھا کر کلینک لے گئے اور بڑی محبت سےمرہم پٹی کرائی تھی۔
اسی مناسبت سے غزہ کے بارہ سالہ احمد کو یاد کر کے میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ صحافی ابو حمزہ غ زہ کے پناہ گزین اسکول کے باہر بچوں سے انٹرویو لےرہے تھے۔
احمد کی خوبصورت آنکھیں محبت اور فخر سے چمک رہی تھیں۔ اور وہ بڑی محبت سے بچپن کی یادوں میں کھویا اپنے بڑے بھائی کو یاد کر رہا تھا کہ وہ اسکو کیسے گود میں اٹھا کر اسکول لاتا لے جاتا تھا،اور لاڈ اٹھاتا تھا۔ صحافی نے پوچھا تمہارے کمر سے بندھے تھیلے میں کیا ہے؟ احمد پر سکوت سا چھا گیا ، وہ خلاؤں میں گھورتا ہوا بولا ” تھیلے میں میرے بھائی کے ٹکڑے ہیں، مگرمجھے بالکل بھاری نہیں لگ رہے،جسطرح بچپن میں بھائی مجھے گود لے کر پھرتا رہتا تھا۔ میں بھی اسے اپنے ساتھ رکھوں گا۔
امت مسلمہ کی بےحسی پر رونگھٹے کھڑے کر دینے والے منظر کی تصویر میری آنکھوں میں جم سی گئی ہے۔ دلوں کو چیر دینے والی کہانی سنا کر وہ لڑکا امت کے لیے سوالیہ چھوڑ گیا۔غزہ والوں کے ایمان کی کشش اتنی ہے کہ دلوں کو اسیر بنا لیتی ہے۔
یہ لوگ خطۂ ارضی کے بہترین انسان ہیں جو اپنی انوکھی باتوں اور نرالے انداز سے پوری دنیا کو مسلمانوں کی گم گشتہ میراث سے روشناس کرا رہے ہیں۔