غزہ ! اُجڑتا دیار

غزہ، وہ پھول جو زندگی کی رنگینیوں میں جلوہ گر تھا، اب روز بروز بکھرتا جا رہا ہے۔وہ بچے، جن کی آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی، اب اپنی معصومیت کو صیہونیت کی سلاخوں کی قید میں محسوس کرتے ہیں۔

سر زمین قدس کے ایمان سے لبریز قلب والے باشندوں پر جاری بربریت اور نسل کشی کو آج ایک سال، یعنی 365 دن / 8760 گھنٹے / 525600 منٹ ہو گئے۔ امت کی بےحسی تو ملاحظہ فرمائیے، بے ضمیری کے گہرے گڑھے میں گرے، بے غیرتی کا عملی مظاہرہ پیش کرتے، اپنی عیاشیوں میں مست ہوئے ایک سال ہو گیا یا یوں کہنا بہتر ہو گا کہ ایک اور سال کا اضافہ ہو گیا۔ روز اک بات ذہن میں انتشار برپا کرتی ، قلب و روح کو بے چینی کے اس درجے پر لے جاتی ہے کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ آخر امت اتنی بےحسی کا مظاہرہ کرتے تھکاوٹ کا شکار کیونکر نہیں ہو رہی؟؟ کیوں روز محشر کے حساب کتاب سے نظریں چرائے بیٹھی ہے ؟؟؟ امت مسلمہ تو اپنا منصبِ اول ہی بھول گئی۔

میرا دل بے قرار ہے، لہجے کی کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی، آنکھوں سے اشک ہر دم رواں رہتے ، لڑکھڑاتے قدم بدن کا بوجھ اٹھانے سے قاصر محسوس ہو رہے اور تھکاوٹ ہے کہ روح کے اندر تک اترتی چلی جا رہی ۔ اہل غزہ کی درد سے لبریز، زخمی اور سسکتی تصاویر کیا امت مسلمہ کی روح کو جھنجھوڑنے کو کافی نہیں ؟؟

سال قبل اور آج ، کچھ بھی تو مختلف نہیں ۔۔۔  سال پہلے بھی امت مسلمہ بالخصوص اہل عرب دنیاوی موج مستیوں اور عیاشیوں میں مگن تھے اور آج بھی منظر یہی ہے ۔ غزہ ایک بڑی تبدیلی کا شکار ہوا ہے لیکن اہل غزہ کے قلب آج بھی ایمان سے منور دشمن کے قدم لڑکھڑانے کیلئے چاق و چوبند ہیں ۔ آج کا غزہ کسی کھنڈر کا نظارہ پیش کرتا ہے  لیکن جو چیز اسے باقی امت سے ممتاز کرتی ہے وہ  ایمان کی روشنی ہے ۔جو آج بھی ان تباہ شدہ گھروں کی زینت بنے انہیں منور کیے ہوئے ہے۔ کیسے سحر طاری کر دینے والے ہیں ان کے الفاظ  ” سوف نبقی ھنا ۔۔۔ کیی یزول الالم” ( درد ختم ہونے تک ہم یہیں رہیں گے)۔

نہیں بھولتیں ان کی وہ درد سے چور  چیخیں اور  ملبے تلے دبے  شہدا ۔ مجھے وہ ضعیف آدمی نہیں بھولتا جو اپنے نم چہرے اور اَشکوں سے بھری آنکھیں لیے  ٹوٹے بکھرے آشیانے کو حسرت سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ سات سالہ ہند کی وہ خوفزدہ  آواز جو ڈر کر، دبک کر گاڑی میں چھپی بیٹھی مدد کی خواہش مند تھی۔ جس نے اپنی نظروں کے سامنے اپنے عزیزوں کو گولی کا نشانہ بنتے دیکھا تھا۔ واللہ! مجھے وہ آوازیں بخوبی یاد ہیں جب وہ ساتھ رہنے کی التجا کر رہی تھی۔ کیا حالت ہو گی اس ننھی کی جب اس پر 300 سے زائد گولیاں برسائی گئی تھیں ؟؟  جب اس گاڑی کو ٹینک کے نشانہ پر رکھا گیا تھا ؟؟

وہ آدمی جو امن کا علم بلند کیے ان صیہونیوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن ان درندوں نے محض اپنے مزے کیلئے اس کو شہید کر دیا اور لوگ بے یقینی کا مجسمہ بنے رہ گئے۔  وہ بھائی جو اپنی نظروں کے سامنے اپنے بھائی کو تڑپتا دیکھ رہا تھا لیکن بےبسی اس قدر تھی کہ ہل نہ سکا۔ وہ بچہ جو اپنی ماں کے محفوظ سائے میں پناہ لیے چلا جا رہا تھا لیکن لمحوں کے کھیل میں اپنی ماں کو مرتا دیکھ ہلنے سے انکاری ہو گیا۔ وہ بچہ جو اپنی ماں کے وجود کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں تھا کہ اس کی چھاؤں اس سے دور نہ ہو جائے۔ وہ بچہ جو اپنے ماں، باپ اور اس دنیا میں آنے والے اپنے بھائی پر ان صیہونیوں کی درندگی کو دیکھنے والا واحد زندہ انسان تھا۔ وہ پیاری بچی جس کے جسم کے چیتھڑے ٹوٹی عمارت پر جا بجا بکھرے پڑے تھے۔ وہ بچہ جس کا سر اس کے تن سے جدا تھا۔ ہسپتال میں موجود زخمیوں کے علاج میں مصروف وہ ماں جو اپنے جگر پارے کو دیکھ کر حوصلہ ہار گئی۔ ہسپتال کا وہ منظر جسے یکے بعد دیگرے بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ الشفاء جو ان کی امید تھا، اسے بھی ان صیہونیوں نے تباہ کر دیا۔۔ ان کی امید ان سے چھین لی۔ الاقصی ہسپتال کے ڈائریکٹر کا وہ بیان مجھے از بر ہے۔

وہ باپ جو جانتا تھا اس کے گھر کی رحمت کوچ کر گئی ہے لیکن اس کی تڑپ آج بھی میرے ذہن کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ وہ ماں جو اپنے دو لخت جگر کھو بیٹھی۔ وہ ماں جو اپنی ننھی جان کو باہوں میں سموئے خود کو روک نہ سکی۔ وہ ہنستے مسکراتے چہرے جنہیں میں نے صبح سلامت دیکھا تو شام میں ان کا وجود کفن میں لپٹا ہوا ملا۔ وہ بھائی بہن جو یتیم و بے آسرا ہونے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگائے بیٹھے تھے۔ وہ وجود جو بےسدھ پڑا تھا لیکن کوئی بھی اسے اٹھانے میں کامیاب نہ ہوا۔ وہ جوان جو ڈرون بمباری کا نشانہ بنتے جنت کی سڑک پر روانہ تھے۔ وہ دوست جو اپنے دوست کیلئے تڑپ رہا تھا۔ واللہ واللہ!! ایسے کئی مناظر ہیں جو میں گھنٹوں بیان کروں لیکن ختم نہ ہوں۔

ذہن اسی سوچ میں مبتلا رہتا ہے کہ اگر ان واقعات کی منظر نگاری لوگوں کے سامنے کروں تو شاید کسی ایک کی روح کانپ جائے، شاید روح بےضمیری کا لبادہ اتار دے لیکن دل فوراًنفی کر دیتا ہے ۔ کیونکہ بے حس دنیا کا یہ رخ سامنے  ہے کہ وہ تو آنکھوں سے دیکھنے پر نہیں پلٹی تو  کیا ایسے پتھر دلوں پر میرے الفاظ اثر کریں گے؟؟  وہ جو آنکھوں دیکھی تکلیف پر اندھے بنے بیٹھے ہیں، ان کے کان وہ چیخیں سننے سے انکاری ہیں گویا بہرے پن کا عملی مظاہرہ ہے۔ کیا ایسے لوگ “وسط امت” پر تو دور انسانیت کے درجے پر بھی فائز ہیں ؟؟؟

“ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ،یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں” (سورہ الاعراف: 179)

میرا دل چاہتا ہے امت مسلمہ کو جھنجھوڑ دوں، ان کو بتاؤں کہ ان کی یہ عیاشیاں اگلے جہاں میں ان کےلئے کیا سامان تیار کیے بیٹھی ہیں… افسوس امت مسلمہ اس اصول زندگی کو بھلائے ” امت وسط” کے منصب اول سے بیگانہ بیٹھی ہے۔۔ اپنی مستی میں مگن تصور امت کو بھلا بیٹھے ہیں ۔۔۔

شیخ یاسین کے امت مسلمہ کے متعلق خیالات پر الفاظ کچھ یوں ہیں؛

” ہم چھوٹے تھے تو سمجھتے تھے یہود غزہ پر قابض ہیں۔ جب بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہود پورے عرب پر قابض ہے سوائے غزہ کے”۔

اندلس کے لوگ برسوں تک شمشیر بکف رہے لیکن مراکش سے کوئی یوسف بن تاشفین، مصر سے کوئی صلاح الدین ایوبی ، ترکستان سے کوئی ملک شاہ، عرب سے کوئی محمد بن قاسم اور افغانستان سے کوئی محمود غزنوی ان کی مدد کے لیے نہ پہنچا۔ اندلس کی خاک شہیدوں کے خون سے سیراب ہوتی رہی اور جب الطارق کی چٹانیں جنوب اور مشرق سے آنے والے سفینوں کا انتظار کرتی رہیں۔

تین نسلوں تک جاری رہنے والی یہ جنگ اس وقت ختم ہوئی جب مجاہدوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بہہ چکا تھا، تلوار نے اس وقت اپنی بے بسی کا اعتراف کیا جب اسے اٹھانے والے ہاتھ کٹ چکے تھے۔

اندلس میں باقی مسلمانوں کے لیے آگ، خون اور آنسوؤں اور آہوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اندلس کے مسلمانوں پر کیا گزری۔ ان میں سے کتنے لاکھ تھے جنہیں ملک بدر کرنے سے پہلے ان کے نابالغ بچے ان سے چھین لیے گئے۔ کتنے ہزار تھے جنہیں آگ میں زندہ جلایا گیا ۔ کتنے تھے جنہیں بدترین اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان عورتوں کی تعداد کیا تھی جنہیں درے مار مار کر ہلاک کیا گیا

تاریخ ہمیں ان تمام سوالات کے جواب دیتی ہے۔ لیکن ہمیں ان الم ناک واقعات کی تفصیل جاننے کے لیے تاریخ کی ورق گردانی کی ضرورت نہیں! ہم حال کے آئینے میں ماضی کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ اندلس میں آٹھ سو برس کی حکومت کے بعد آج ایک بھی مسلمان دکھائی نہیں دیتا۔ ” ( شاہین از نسیم حجازی رح )

جو قوم اپنی تاریخ کو نظر انداز کیے، اصول زندگی کو بھلائے بیٹھی ہو، پھر ان کی منصب اعلیٰ سے دستبرداری یقینی معلوم ہوتی ہے اور ان کی جگہ ان سے بہتر لوگوں کو تکمیل مقصد کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے ۔۔ افسوس!! یہ امت اس قدر انتشار کو شکار ہے کہ اپنے عضو کی تکلیف بھی محسوس کرنے سے قاصر ہے۔۔۔  “اللہم انصر مجاہدین فی فلسطین۔۔۔ “