تلاوت قران پاک کرتے ہوئے سورہ المائدہ کی آیت نمبر 51 پر پہنچی ،جہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ،، اے ایمان والو مت بناؤ یہود ونصاریٰ کو دوست، وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں سے ہے۔
ذہن میں ایک دم خیال ابھرا کہ آج فلسطین کے حالات اور مسلمانوں کی ان سے لاتعلقی وجہ یہی یہود ونصاریٰ سے دوستی ہے ۔ آج ہم اس دوستی کو نبھانے کے لئے اس قبلہ اول اور یہاں کے مسلمانوں کی مدد کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں کتنے واضح الفاظ میں ایمان والوں کو یعنی امت مسلمہ کو ان سے دوستی کرنے سے روکا ہے۔
اسلام تمام بندگان خدا کے ساتھ انصاف اور بہترین سلوک کی تاکید کرتا ہے ان کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیتا ہے لیکن ان سے دوستی سے منع فرمایا گیاہے اور اس دوستی سے ایمان والوں کو کیوں منع فرمایا گیاہے اس کے نتائج اور اسکی وجہ آجکل کے حالات سے عیاں ہیں 57 مسلم ممالک کی متحد افواج اور مسلم ایٹمی طاقت خاموش تماشبین ہیں۔ اور سب سے بڑی طاقت ایمان کی ، اگر ہم سچے مومنین کی جماعت میں سے ہیں تو ہم ہتھیاروں کے محتاج بھی نہیں ہوسکتے۔
مسلمان لشکروں نےتمام غزوات اور جنگوں میں بےسروسامانی کے باوجود دشمنان اسلام کو شکست دے کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ تاریخ ان فتوحات کی گواہ ہے۔ پھر آج کس بات کا خوف ہے کیا ان طاغوتی قوتوں کی دوستی راہ کی رکاوٹ ہے،یہ نام نہاد حکمران طبقہ کبھی مندروں میں دیئے جلاتے نظر آتے ہیں تو کبھی گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجاتے۔
اگر ہم ایمان والوں میں شامل ہیں تو ہمیں ان دجالی قوتوں کی دوستی کے چنگل سے نکل کر فلسطینیوں کا بھرپور طریقے سے ساتھ دینا ہوگا اس جہاد میں اپنےاپنے وسائل کے مطابق ہمیں شامل ہونا ہوگا۔
جماعت اسلامی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ بے خوف وخطر فلسطین غزہ اور حماس کی حمایت کے لئے سب سے آگے ہیں بلکہ سب کو جھنجھوڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ایمان والوں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھو دعا ہے کہ امت مسلمہ مکمل طور پر بیدار ہوجائے تو یقینا ًیہ دشمنان اسلام شکست کھا کر پیچھے کی طرف پلٹ جائیں گے اور یہی رب العزت کا وعدہ ہے،ان شاءاللہ