نبی آخر الزمان نے یہ فرما کر کے مسلمان آپس میں جسم کے مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تکلیف مبتلا ہو جاتا ہے، کیسا خوبصورت احساس مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں کر دیا، کہ جس نے تمام مسلمانوں کو ایک امت بنا دیا۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ آج جسم کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گر رہے ہیں، لیکن بقیہ جسم کو فرق ہی نہیں پڑ رہا۔
ایسا کیوں ہے؟ اتنی بے حسی کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ لیکن ہم مسلمان شاید اس سوال کا کھوج لگانا ہی نہیں چاہتے۔ اپنے اپنے منبر اور اپنی اپنی مسجدیں بنا کر اس کو اپنا مقصدِ زندگی سمجھ کر پرسکون ہو گئے ہیں۔ شاید دنیا کی لذتوں کے چھن جانے کا ڈر ہے یا پھر طاغوتی عناصر کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ ایک طرف انبیاء کی سرزمین لہو لہو ہے۔ جس کے باسی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف امت مسلمہ چپ سادھے بیٹھی ہے۔
ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے ملبوں پر کھڑے دبی دبی سسکیوں میں امت امت پکارتے تھک چلے ہیں۔ لیکن جواب ندارد۔ ہاں دنیا کے کسی گوشے میں صدائے احتجاج بلند ہو بھی جاتی ہے تو اس میں وہ دم خم نہیں ہوتا کہ جو ان مظلوموں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو۔فلسطین کے جان نثاروں کو شاید اپنے گھر بار اور سب سے بڑھ کر اپنی جانوں کا زیاں اتنا بھاری نہ لگتا ہوگا جتنا امت مسلمہ کی طرف سے خاموشی کا غم انہیں رلاتا ہوگا۔ غیروں کی لگائی ہوئی چوٹ کی تکلیف میں وہ شدت نہیں ہوتی جو اپنوں کی لگائی چوٹ میں ہوتی ہے۔
جس نبی کی محبت میں مسلمان بڑے بڑے جلوسوں میں نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اور اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں اس نبی نے ہی تو مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا احساس کرنے پر زور دیا۔ یہ کیسی محبت ہے کہ روزِ محشر جس پر سوال اٹھایا جائے گا کہ غریب اور مظلوم بھائی بہنوں کے لیے ہم آواز کیوں نہ ہوئے؟ ان کی مدد کیوں نہ کی؟ وقت کے حکمرانوں کے سامنے احتجاج کیوں نہ کیا؟ کہ وہ ریاستی قوت کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے۔ لیکن مسلمان مصلحتوں اور حکمتوں کے نرم گرم لبادے اوڑھے خاموش بیٹھے ہیں۔ ان غیر مسلموں کو دیکھ کر بھی ذرا غیرت نہیں آتی جن کے ساتھ دین کا کوئی رشتہ بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ انسانیت کے ناطے پوری قوت کے ساتھ اہلِ فلسطین کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
اللہ نے مسلمانوں کو دو طرح کی ہتھیار بتا دیے ہیں ایک محنت اور کوشش اور دوسرا دعائیں۔ لیکن دنیا کی محبت اس قدر غالب آ چکی ہے کہ صرف دعاؤں کے ہی ہتھیاروں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ اس میں تھکنا نہیں پڑتا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر مزے مزے کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا تو کر ہی لیتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں؟ حالات اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتے کہ ان کی مدد کی جا سکے۔ کیا اللہ کے آگے یہ حجت کافی ہوگی۔
کس منہ سے نبی آخر الزماں ﷺ کا سامنا کریں گے؟ کیا طرح طرح کی بدعتوں کا بوجھ اٹھائے خوض کوثر کے پانی سے سیراب ہو سکیں گے؟ کم از کم ان مظلوموں کی اتنی مدد تو کر ہی سکتے ہو نہ کہ روز مرہ کی ان اشیاء کا بائیکاٹ کریں جس کے ذریعے دہشت گردوں کو طاقت مل رہی ہے یا کم از کم کسی کپڑے یا کاغذ کے ٹکڑے پر مظلوموں کے لیے ہمدردی کے دو بول لکھ کر گھروں کے باہر دروازوں پر یا سڑک کے کنارے پر کھڑے ہو جاؤ اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروا لو۔ چپ کا روزہ تو توڑو اور دو سطریں ان کی ہمدردی اور حمایت میں لکھ کر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ان تک پہنچا دو تاکہ ان کا یقین تو نہ ٹوٹے کہ امت مسلمہ میں بھائی چارے کااحساس مردہ پڑ چکا ہے۔ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر ان کے لیے چند آنسو بہا کر دعائیں ہی کر لیں۔ یہی سب سے آسان راستہ ہے۔ اللہ بڑا ہی رحیم و کریم ہے۔