روشن چراغ

علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر “نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر، تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر”، دراصل مسلمانوں کو ان کی حقیقی فطرت اور مقصد کی طرف متوجہ کرنے کی ایک پرزور دعوت ہے۔ یہ شعر نہ صرف ایک فکری چیلنج ہے بلکہ ایک انتباہ بھی کہ مسلمان اپنی صلاحیتوں اور وقار کو بلند کریں اور اس دنیا کی ظاہری چمک دمک میں گم نہ ہوں۔

اقبال کے نزدیک “شاہین” مسلمان کی ایک استعاراتی تصویر ہے، جسے قدرت نے بلند پروازی، آزاد فطرت، خود اعتمادی، اور عظمت کے لئے پیدا کیا ہے۔ شاہین وہ پرندہ ہے جو کسی قید میں رہنا پسند نہیں کرتا، وہ شکار کو خود ڈھونڈتا ہے، اپنے بل بوتے پر زندگی گزارتا ہے اور اونچے پہاڑوں کی بلندیوں پر بسیرا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، “قصر سلطانی” دنیاوی جاہ و جلال، عیش و عشرت، اور غلامانہ سوچ کی علامت ہے۔ اقبال کا مقصد مسلمانوں کو بتانا تھا کہ ان کی کامیابی دنیاوی طاقت اور شان و شوکت میں نہیں بلکہ بلند اخلاقی اصولوں اور روحانی عظمت میں ہے۔

اگر ہم موجودہ مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیں تو یہ شعر ان کی زندگیوں پر بالکل درست ثابت ہوتا ہے۔ آج کے مسلمان عموماً دنیاوی مقاصد، دولت، اور طاقت کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں، اور اکثر وہ اپنے حقیقی مقصد اور فطرت کو بھول جاتے ہیں۔ وہ انہی “قصر سلطانی” کے گنبدوں میں اپنا نشیمن تلاش کرتے ہیں جہاں ان کے لئے کوئی سکون اور عروج نہیں ہے۔

موجودہ دور کے مسلمان مادی دنیا میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ معاشرتی رتبے، سیاسی طاقت اور معاشی فائدے کو کامیابی کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ مغربی معاشرت کے طور طریقوں کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی شناخت کو ثانوی حیثیت میں رکھتے ہیں۔ اقبال کے فلسفۂ شاہین کے برعکس، وہ غلامی کی زنجیروں میں خود کو جکڑتے جا رہے ہیں، اور اپنے روحانی، علمی، اور فکری ورثے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

موجودہ مسلمان قوم کو خود پر اعتماد کی کمی کا سامنا ہے۔ جہاں کبھی مسلمان سائنس، فلسفہ اور فنون میں پیش پیش تھے، آج وہ دنیا میں دیگر قوموں کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ علم اور تحقیق سے دوری نے مسلمانوں کو دوسروں پر انحصار کرنے والا بنا دیا ہے، جبکہ اقبال کے “شاہین” کو خود انحصاری کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

موجودہ مسلمان قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ جہاں اقبال مسلمانوں کو رہنمائی اور قیادت کے لئے اپنے اندرونی اصولوں پر انحصار کرنے کی دعوت دیتے ہیں، وہاں آج کی مسلمان قیادت اکثر ظاہری طاقت اور دولت کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں، اور اپنے عوام کو حقیقی معنوں میں ترقی اور بلندی کی طرف لے جانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

اقبال کا فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں دنیا کی چکا چوند میں کھو جانے کے بجائے اپنی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو پہچاننا اور انہیں پروان چڑھانا چاہیے۔ اگر مسلمان شاہین کی طرح بلندی کی طرف پرواز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں “قصر سلطانی” کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ یہ محض ظاہری طاقت اور دولت نہیں بلکہ علم، تحقیق، اخلاقیات، اور اپنے اندر کی طاقت پر اعتماد ہی مسلمانوں کو دوبارہ عروج پر لے جا سکتا ہے۔

آج کے دور میں، جب مسلمان خود کو بے یقینی اور بحران کی حالت میں پاتے ہیں، اقبال کا یہ پیغام انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ وہی ہے جو انبیاء اور اولیاء نے ہمیں دکھایا تھا—وہ راستہ جس میں دنیاوی عیش و عشرت کی بجائے، مقصدیت، خودداری، اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ “شاہین” کی طرح، مسلمانوں کو پھر سے اپنی شناخت کو اپنانا ہوگا اور دنیا کے سامنے اپنے عظیم ماضی کی بازیافت کرنی ہوگی۔

اقبال کا پیغام آج بھی روشن چراغ کی مانند مسلمانوں کو راہ دکھا سکتا ہے، بس ضرورت ہے تو اس پیغام کو سمجھنے اور عمل میں لانے کی۔