سندھ کے دور افتادہ ضلع بھٹ شاہ میں مدفن ایک صوفی بزرگ جسے میں اپنے الفاظ میں محبت کا استعارہ کہوں تو کچھ بے جا نہ ہوگا جس کا باطنی وجود اس قدر اجلا تھا کہ جب اپنے خیالات و جذبات کو اس حساس شاعر نے الفاظ کا روپ دیا تو اس کے غنچوں کی مانند مہکتے اشعار سے آئینے کی طرح شفاف و پاکیزہ محبت کی خوشبو پھوٹی اور چہار اطراف میں پھیل گئی اس خوشبو کو میں اور آپ آج بھی محسوس کرسکتے ہیں جس نے سندھ کی الفت و یگانگت سے زرخیز سرزمین کو سیراب کیا اور ہمارے دلوں کے کناروں کو نرمی سے چھو لیا ۔۔۔۔
جی ہاں قارئین کرام !
آپ جان چکے ہوں گے کہ میں کس ہستی کا ذکر آپ سے کررہی ہوں یہ شاہ عبداللطیف بھٹائی ہیں جنھوں نے سندھ کی دھرتی اس کے صحراؤں میں ایسی محبت جس کا کوئی مول نہیں ایسا عشق جس میں ہوس کا شائبہ تک نہیں کہ لازوال چشمے بہائے ہیں ۔۔۔ مہرووفا کی مٹھاس سے بھرپور ان محبت کے چشموں کے پانیوں کو گزرتے زمانوں کی دھول بھی نہ ہی تو خشک کر سکی ہے اور نہ ہی شاہ کے پیام محبت کی تاثیر ہمارے دلوں سے محو ہوسکی ہے ۔
شاہ کے کلام میں جس محبت کی اثر انگیزی جا بجا پھیلی نظر آتی ہے وہ محبت کی آفاقیت کو لامحدود وسعتیں عطا کرتی ہے شاہ کی آفاقی محبت میں ایسے ایسے جذبے کار فرما ہیں جو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے چاہنے والوں کو بہادری ،جرات، ہمت و حوصلہ ،استقلال، عزم صمیم، وسیع النظری ،کردار کی پختگی ، کشادہ ظرف ، اپنی مٹی سے محبت، حب الوطنی اور مقصدیت کی خاطر ہر کٹھن گھڑی اور مصائب کو برداشت کرنے کا سبق دیتے ہیں ۔۔۔۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے آج سے تین صدیاں قبل اپنی شاعری میں عورت کے کردار کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے ۔
شاہ کے کلام میں موجود عورت کے کردار کی بات کی جائے تو عورت مجسم وفا کے پیکر میں ڈھلی ہوئی ہے ۔۔۔
شاہ کی ہیروئن محض نازک اندام وجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ اتنی بے بس کہ کسی بیرونی دباؤ کے ریلے میں بہہ کر اپنی عقل و خرد اور مرضی و منشا کی طنابیں دوسروں کے ہاتھ میں تھما دے ۔۔۔ بلکہ شاہ نے عورت کو ایسا مضبوط و توانا مقصد زندگی سے معمور وجود دکھایا ہے۔ جو مٹ تو سکتا ہے مگر سچی لگن سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ۔
شاہ کے ہاں عورت کا حسن اس کے لب و رخسار قدوقامت اور زلف و ابرو کے پر پیچ اشارے نہیں ہیں بلکہ شاہ عبداللطیف نے عورت کا حسن اس کے کردار کو ٹھہرایا ہے بنت حوا کی بیٹیوں کی فطرت میں شامل بہادری لگن اور بلند حوصلگی شاہ کے کلام کا خاصہ ہے۔ شاہ عبد اللطیف نے عورت کی فطرت میں گندھی محبت کی خالص ترین شکل اور وفا کی چاشنی سے لبریز کردار کو اپنا موضوع کلام بنایا ہے ۔
پھر چاہے وہ سوہنی ہو جو اپنے کچے گھڑے میں دریائے چناب پار کرتی ہے اور ہنسی خوشی دکھ اٹھاتی ہے ۔جس کے آگے چناب کے منہ زور پانی بھی رکاوٹ نہ بن سکتے ہوں ۔۔ یا بچھڑی ہوئی محبت کی متلاشی سسی جو وحشت ناک بیابانوں اور اجاڑ ویرانوں کی خاک چھانتی ہے۔ اور بلاآخر فنا کے گھاٹ اتر کر بھی امر ہو جاتی ہے۔
شاہ سسی کے کردار کو جہد مسلسل اور قربانی کی علامت بنا کر میرے اور آپ کے آگے پیش کرتے ہیں ۔اور ذکر ہو مومل رانا کا جس کا خمیر وفا کی مٹی سے اٹھایا گیا ۔ یا پھر بات ہو ملیر کی ماروی کی جو عمر بادشاہ کے محلات میں بھی بے قرار روح کی طرح بھٹکتی ہے ۔ اور وطن کی محبت و اپنے دل سے نکال نہیں سکتی ۔عمر کے محلات کی چمک دمک سے زیادہ عزیز اسے اپنی ملیر کی جھونپڑیاں ہیں جہاں وہ آزاد فضاؤں میں سانس لیتی تھی اور آزاد پنچھی کی طرح اڑان بھرا کرتی تھی۔
شاہ کی یہ سورمیاں ( بہادر عورتیں) محبت کی لوک داستانوں کا ایسا کردار ہیں جن سے آج کی عورت بھی جرأت و بہادری کا سبق لے سکتی ہیں ۔ یہ محض سطحی عشق و محبت کی داستانیں نہیں ہیں بلکہ چشم بینا رکھنے والوں کے لئے ترواٹ بخشنے والا نظارہ ہیں ۔ ۔۔ ۔
سک ائں سنگت جو یار سگو
کڈھں ماں تھو چھکیاں کڈھں تو تھو چھکیں۔۔۔
پیار اور تعلق کا جو دھاگہ ہے
کبھی میں کھینچتا ہوں کبھی تم کھینچتے ہو۔