میں صابن کے حوالے سے ریسرچ کررہاتھا تو مجھ کچھ تاریخی پس منظر ملاجو میں آپ سے شئیر کروں گاآپ بھی پڑھ لیجئے گا۔معلوم تاریخ کے مطابق قدیم زمانے سے ہاتھ منہ اور کپڑے وغیرہ دھونے کا مسئلہ انسان کے سامنے رہا ہے۔ صابن کی طرح کے مواد کے اولین شواہد قدیم بابل میں ملے جو 2800 ق م کے ہیں۔ بابل میں 2200 ق م کی ایک تختی پر صابن بنانے کا ایک فارمولا درج ہے جس میں پانی، الکلی اور تیج پات کے استعمال کا ذکر ہے۔ 1550 قبل مسیح کی پائپرس پر لکھی گئی ایک معروف طبی تحریر کے مطابق قدیم مصری جانوروں اور سبزیوں کے تیل کو الکلی نمک کے ساتھ ملا صابن کی طرح کا مواد تیار کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سماج کے قدیم دور میں جسمانی صفائی کے لیے راکھ اور لکڑی کا برادہ ملا کر بھی استعمال کیا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے ہاتھوں میں جو کھردرا پن آ جاتا تو بعد میں تیل یا کوئی اور چکنی چیز مل لی جاتی۔
قارئین: پھر جیسے جیسے وقت گزرتاچلاگیا انسان مزید سوچتاچلاگیا اور اس حوالے سے پھر نت نئے طریقے اپنائے ۔
ہم اگر دیکھیں تو پہلی صدی عیسوی میں یورپ کی ایک قوم کے لوگ لکڑی کی راکھ اور چربی ملا کر سر دھویا کرتے تھے۔ رومن عہد کے شہر پام پے ای (پہلی صدی قبل مسیح) میں خوشبودار صابن اور صابن بنانے والا کارخانہ ملا ہے۔ قدیم چین میں ایک پودے کے بیج سے ڈیٹرجنٹ تیار کیے جاتے تھے۔
اسی طرح قارئین خوشبو دار ٹوائلٹ سوپ عہدوسطیٰ کے اسلامی دور میں تیار کیا گیا۔ اس دور میں صابن کی تیاری نے صنعت کی حیثیت اختیار کر لی۔ محمد بن زکریا الرازی (854–925ئ) نے صابن کی تیاری کے کئی طریقے درج کیے ہیں۔ آٹھویں صدی میں اٹلی اور سپین میں صابن کی تیاری عام تھی ۔ بارہویں صدی تک فرانس میں یہ کافی مقبول ہو چکا تھا۔
قارئین: جب میں صابن کے استعمال کی تاریخ پر پڑھتاچلاگیا تو مجھے روزنامہ دنیا کا ایک آرٹیکل بھی ملا اس سے مستفید مواد بھی آپ سے شئیر کررہاہوں ۔
فرانس کے شہر ماسلیز میں صابن کا بڑا کارخانہ تھا۔ انگلستان میں لوگ چودہویں صدی میں اس سے واقف تھے لیکن اس کی صنعت باقاعدہ طور پر سترہویں صدی میں قائم ہوئی۔ انیسویں صدی میں علم کیمیا کی ترقی کے ساتھ اس کی تیاری کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے۔آج ہم دیکھتے ہیں مختلف شیپ اور مختلف استعمال والے صابن ہمیں مارکیٹ میں ملتے ہیں ۔آپ بھی ذرا اپنے استعمال ہونے والی چیزوں پر غور ضرور کرلیاکریں ۔آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔میں چونکہ فقہ الحلال کے حوالے سے ریسرچ کررہاہوں ۔تو میراتو یہ میدان ہے لیکن آپ بھی حلال و حرام کے زاویے سے چیزوں پر فکر ضرور کرلیاکرو۔یہ مضمون بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
قارئین:آپ نے دیکھاہوگاکہ میں تمام معلومات پیش کرنے کے باوجود حرام یا حلال کا فتوی صادر نہیں کرتابلکہ وہ متعلقہ معلومات پیش کرتاہوں ۔اب حرام و حلال کا فیصلہ علما و مفتیان کرام ہی کرسکتے ہیں ۔میں ایک طالب کی حیثیت سے پروسس اور ہیئت ضرور شئیر کردیتاہوں ۔
آئیے اب ذرا صابن کی اقسام کے بارے میں بھی جان لیتے ہیں ۔تاکہ ہمیں معلوم تو ہو کہ صابن کتنی قسم کاہے ۔
قارئین:صابن کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے کچھ اہم یہ ہیں:
بیسک صابن:عام استعمال کے لیے، جیسے کہ ہاتھ دھونے اور جسم کو دھونے کے لیے۔
لیکوئیڈ صابن:مائع شکل میں ہوتا ہے، خاص طور پر ہاتھ دھونے کے لیے۔
صابن:خاص مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے، جیسے کہ چہرے کے لیے، ایکنی کنٹرول کے لیے، یا حساس جلد کے لیے۔
اینٹی بیکٹیریل صابن:بیکٹیریا کو مارنے کے لیے مخصوص کیمیکلز شامل ہوتے ہیں۔
غذائیت والے صابن:قدرتی تیل اور موئسچرائزرز کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے، جلد کو نرم کرنے کے لیے۔
ہربل صابن:قدرتی جڑی بوٹیوں اور اضافی عناصر کے ساتھ تیار ہوتا ہے۔
پرفیومڈ صابن:مختلف خوشبوؤں کے ساتھ آتا ہے، جو استعمال کے دوران خوشبو فراہم کرتا ہے۔
ملٹی-پرفیومڈ صابن:مختلف خوشبوؤں کا ملاپ، جو خاص مواقع کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
گلیسرین صابن:گلیسرین کی موجودگی کی وجہ سے ہلکا اور موئسچرائزنگ ہوتا ہے۔
صابون کے شیمپو:خاص طور پر بالوں کی صفائی کے لیے تیار کیا گیا ہوتا ہے۔یہ اقسام مختلف مارکیٹوں میں دستیاب ہوتی ہیں اور صارفین کی مختلف ضروریات کے مطابق منتخب کی جا سکتی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ کوشش آپ کے لیے ایک نئی معلومات کا ذریعہ ہوگی ۔اللہ کریم ہمیں علم نافع سے بہرہ مند فرمائے ۔