سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمیشن 2024 کے عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کو یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اگر کسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو پھر وہ مخصوص نشستوں کی اہل نہیں رہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے ، زیر سماعت مقدمہ کسی ایک جماعت، سیاسی رہنما یا امیدوار کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ اِس کا تعلق پاکستان کے عوام اور ان کے آئینی اور بنیادی حقوق سے ہے اوران آئینی اور بنیادی حقوق کا نگہبان سپریم کورٹ ہے۔‘ عوام کی خواہش ہی جمہوری آئین کا بنیادی وصف ہے جبکہ صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کمیٹی کو ایک خط بھی لکھ دیا ، جس میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ آرڈیننس کا اجراء اور اجرا ء کے چند ہی گھنٹوں بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی ، ترمیمی آرڈیننس آنے کے بعد بھی سینئر ترین ججز کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔ کوئی وجہ بتائے بغیر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹا دیا گیا، جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹانے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں، اپنی مرضی کا ممبر کمیٹی میں شامل کرکے من مرضی کی گئی جو غیر جمہوری رویہ اور ون مین شو ہے۔ اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھاکہ چیف جسٹس کی ذات میں انتظامی معاملات کا ارتکاز غیر جمہوری اور عدالتی شفافیت کے اصول کے برعکس ہے۔
جسٹس منصور کی کمیٹی میں واپسی کیلئے 3 شرائط چیف جسٹس کے سامنے رکھ دیں،
جب تک فل کورٹ اس آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
جب تک فل کورٹ آرڈیننس کے ذریعے ترامیم پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
جب تک چیف جسٹس سابقہ کمیٹی بحال کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کو شامل نہیں کرتے کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ صدارتی آرڈیننس پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔ واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر چلے گئے تھے، انہوں نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا !
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد جہاں تحریک انصاف الیکشن کمیشن سے فوری طور پر اپنے ارکین کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے تو وہیں خلائی مخلوق کی ترجمان حکومت اس فیصلے پر قانونی سوالات اٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف قانون، دوسری طرف عدالتی فیصلہ، ابہام مزید بڑھ گیا ، قانون سازی پارلیمان کا حق ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ جوکہے گا وہ آئین ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا ایکٹ غیر قانونی ہے۔