اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد، مسلمانوں میں شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم نے شدت اختیار کی۔ اس تقسیم نے نہ صرف مسلمانوں کو داخلی طور پر کمزور کیا بلکہ غیر مسلم قوتوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔
فرقہ واریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان شدید جنگیں ہوئیں، جیسے اموی اور عباسی خلافتوں کے درمیان۔ اسی طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی اندرونی اختلافات اور سیاسی کشمکش نے سلطنت کی جڑوں کو کمزور کیا۔
مسلمانوں کے زوال میں بیرونی حملوں کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ صلیبی جنگوں اور منگول حملوں نے مسلمانوں کی سلطنتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ منگولوں نے بغداد کو تباہ کر دیا، جو اس وقت مسلمانوں کا علمی اور سیاسی مرکز تھا۔ ان حملوں نے مسلمانوں کی طاقت کو مزید کمزور کر دیا اور یورپی طاقتوں کو اسلامی سلطنتوں پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
مسلمانوں کے عسکری زوال نے بھی ان کی سلطنتوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ عثمانی سلطنت جو کہ ایک بڑی عالمی طاقت تھی، رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگی۔ اس عسکری کمزوری کا فائدہ اٹھا کر یورپی استعماری طاقتوں نے اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ برطانوی، فرانسیسی، اور دیگر یورپی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ، افریقہ، اور ایشیا میں مسلمانوں کے زیرِ حکومت علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یورپی استعماری طاقتوں نے نہ صرف اسلامی علاقوں کی دولت لوٹی بلکہ مسلمانوں کی ثقافتی، مذہبی، اور سیاسی خودمختاری کو بھی ختم کر دیا۔
مسلمانوں کی عظیم سلطنتوں کے زوال کے بعد، آج مسلمان ممالک زیادہ تر ترقی پذیر یا پسماندہ ہیں۔ داخلی مسائل، سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، اور تعلیمی پسماندگی جیسے مسائل آج بھی مسلم دنیا کو درپیش ہیں۔ اگرچہ اسلامی دنیا میں بہت سی قدرتی دولت اور وسائل موجود ہیں، مگر ان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے میں ناکامی نے ان ممالک کو عالمی سطح پر پیچھے رکھا ہے۔
مسلمانوں کی ماضی کی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنی موجودہ صورتحال کا گہرا جائزہ لیں۔ علم و تحقیق کو دوبارہ فروغ دینا، انصاف اور مساوات پر مبنی نظام قائم کرنا، اور داخلی اختلافات کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح عالمی سیاست میں اپنے کردار کو مؤثر بنانے کے لیے مسلمانوں کو ایک مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کی ماضی کی حکمرانی ایک اہم سبق ہے کہ جب تک علم، انصاف، اور اتحاد کو برقرار رکھا جائے، ترقی ممکن ہے۔ مگر جب یہ اصول نظرانداز کیے جائیں، تو زوال یقینی ہے۔