کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل یہودی موسٰی علیہ السلام کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے جرائم کی بڑی لمبی فہرست ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اپنی قوم کا سب سے بڑا خیر خواہ ہوتاہے۔ وہ اپنی قوم میں اخلاق کے اعلٰی درجے پر فائز ہوتاہے وہ اپنی قوم کی اصلاح کے لیے بے لوث خدمت سر انجام دیتاہے۔ یہودی قوم کے جرائم میں سب سے بڑا جرم یہ بھی درج ہے کہ ان لوگوں نے انبیاء کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ بھی رنگے ہیں اور ان کو بدترین تشدّد کا نشانہ بنایاہے۔
اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والی اسرائیلی قوم انسانیت کی دشمن کیونکر نہ ہو یہ بات صدیوں کی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے اسرائیل کے قیام کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے جب یہودیوں کو ساری دنیا میں بکھیر دیا گیا تو یہ دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیل گئے ان کی بڑی تعداد یورپ اور روس میں جابسی مگر ان کی انسانیت کے خلاف سازشیں جاری رہیں جس کو یورپی اقوام اور روسی جان چکے تھے ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے یورپی بھی پریشان تھے۔
ہٹلر کی یہودیوں کے خلاف کاروائی کے بعد امریکہ کے اعتراز کے جواب میں ہٹلر نے کہا تھا کہ ’’ یہ معمول کی بات ہے‘‘ حقیقت یہی ہے خود امریکہ میں بھی آٹھ کروڑ ریڈ انڈینز کو نام نہاد امریکیوں نے قتل عام کرکے اقلیت میں تبدیل کردیا تھا۔ یورپ میں رہنے والی اقوام نے یہودیوں کے آئے روز کی سازشوں سے تنگ آکر ان کو یورپ سے نکالنے کی ایک راہ نکالی اور وہ اسرائیل کے قیام کا منصوبہ تھا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ اور روس سمیت پور ی دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطین کی زمینوں میں آباد کیا گیا اس کام میں تمام یورپی قوموں نے یہودیوں کو ہر ممکن سہولتیں دیں تاکہ جلد از جلد تمام یہودی اسرائیل میں جاکر بس جائیں اور یورپی ممالک اور روس جہاں یہ بڑی تعداد میں آباد تھے یہودیوں سے پاک ہوجائیں۔ ساری دنیا سے یہودی خاندانوں کو اسرائیل میں جمع کرنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔
چونکہ مسلم ممالک کے درمیان یہ ناجائز ریاست قائم کی گئی ہے تو اس کا ردعمل مسلمانوں کی طرف سے اور بالخصوص اہل فلسطین کی طرف سے شدّت کے ساتھ آرہا ہے جو کہ ایک فطری اور دینی تقاضا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہی ہے یہودی ذہن انسانیت کش بھی ہے۔ اس ذہن کی عکاسی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے جس میں دنیا کا موجودہ سودی معاشی نظام یہ بھی یہودیوں کا ترتیب دیا ہوا ہے جس کی تفصیل کےلیے ایک اور کالم کی ضرورت ہے۔ اس کالم کا مقصد اقوام عالم کو بیدار کرنا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ یہودی صرف مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ یہودی ساری انسانیت کے دشمن ہیں۔
حالیہ لبنان میں ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی کےذریعے اقدام قتل عام اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعے دھماکے کرکے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔ دورِ حاضر میں دنیا کے عربوں انسانوں کے پاس اینڈرائیڈ موبائل فونز لیب ٹاپ موجود ہیں اور اب یہ زندگی کی ایک ضرورت بن چکے ہیں۔
کیا بعید ہے کہ کسی وقت آپ کو کوئی فون آئے آپ جیسے ہی کانوں کے قریب اپنے فون کو لائیں اور دھماکہ ہوجائے ۔ ایسے میں اسرائیلی وزیر دفاع کا بیان بھی چونکادینے والا ہے اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمارے پاس اس طرح کی کاروائیوں کے لیے مزید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جس کا استعمال ہم کرسکتے ہیں۔ اس بیان سے پہلے حماس کے سربراہ کا قتل جو کہ ایران میں اسرائیل نے کیا اس میں بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے اور اس کا پتا لگانے کےلیے اسی سے ملتی جلتی ایک ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔
حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر کا یہ بیان کہ اسرائیل اپنے دشمنوں کو دنیا کے کسی حصّے میں بھی نشانہ بنائے گا۔ مگر لبنان میں ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی کے دھماکوں میں مرنے والے اور زخمیوں بڑی تعداد میں عام شہری ہیں۔ ویسےبھی غزہ میں اسرائیل نے اپنے دشمنوں کے بجائے عورتوں، بچّوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنایا ہے جن کی تعداد چالیس ہزار ہے یہ عام شہری ہیں۔
اسرائیل کی ان کاروائیوں کی روشنی میں مسلم دنیا کے حکمران اور غیر مسلم دنیا کے حکمران یہ سوچ لیں کہ اسرائیلوں کے نقطہ نظر سے غیر اسرائیلی کی جان مال کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کی خاطر کتنے انسانوں کا خون بہاسکتے ہیں اس کا کچھ اندازہ نہیں بلکہ زمین پر بسنے والا ہر انسان اس کے نشانے پر ہے ۔