اذلان اور عنابیہ دونوں بہن بھائی تھے۔ ان کو کھلونوں سے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن ان کی خالہ ان سے ملنے آئیں، ان کی بیٹی عائزہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ دونوں بچے ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، خوشی میں ان کو سلام کرنا بھول گئے۔ یہ بات ان کی دادی نے نوٹ کر لی پر بولیں کچھ نہیں۔ خالہ بچوں کے لیے کچھ تحائف بھی لائی تھیں، جن کو دیکھ کر بچوں نے خوشی کا اظہار کیا اور شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد کھانا لگا اور سب نے مل کر کھانا کھانے کی دعا پڑھی۔ کھانا کھا کر تمام بچوں نے امی اور خالہ کے ساتھ دسترخوان سمیٹنے میں مدد کی۔
بچے اپنے کھلونوں سے کھیلنے لگے، عنابیہ اور عائزہ گڑیا سے کھیلنے لگیں۔ اذلان یونہی بیٹھا اداس ہو رہا تھا۔ خالہ نے تینوں بچوں کو مشورہ دیا کہ آپ مل کر مہمان مہمان کھیلیں، اذلان کے گڈے کو بھی کھیل میں شامل کریں۔ یہ رائے تینوں بچوں کو بہت پسند آئی، تینوں مل کر کھیلنے لگے۔
جیسے ہی دادی نے یہ دیکھا تو انھیں لگا موقع اچھا ہے، کیوں نہ بچوں کو اب اس ننھی سی دعا کے بارے میں بتایا جائے جس کو پڑھنے سے بیش بہا خزانے پڑھنے والے کو ملتے ہیں۔ عنابیہ اپنی گڑیا کو مہمان بنا کر عائزہ کے گھر لے گئی جس پر عائزہ اور اذلان کے گڈا اور گڑیا نے اس کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ دادی نے بولا، ”بیٹا کسی سے جب بھی ملیں تو ان کو دعا دیتے ہیں، آپ کو وہ ننھی سی دعا بتاؤں جس کو پڑھنے سے بیشمار فوائد ملتے ہیں۔“
بچے یک زبان ہو کر بولے، ”کیوں نہیں دادی جان! ضرور بتائیں۔“
دادی جان نے کہا، ”ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا، أَفْشُوا السّلاَمَ بَينَكُمْ، یعنی آپس میں سلام کو عام کرو۔“
اذلان بولا، ”اس کا کیا مطلب ہے دادی؟“ دادی بولیں، ”اس کا مطلب ہے کہ ہم جب بھی کسی سے ملیں تو اس کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہیں اس کا مطلب ہے آپ پر سلامتی رحمت اور برکت ہو اللہ تعالیٰ کی۔ اس کے جواب میں دوسرا بندہ کہے وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ یعنی آپ پر بھی اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکت نازل ہو۔“
عنابیہ بولی ”دادی جان! پورا سلام کرنا ضروری ہے؟ ہم السلام علیکم بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ دادی بولیں، ”مکمل سلام کرنے پر اجر زیادہ ہے جیسا کہ عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور بیٹھ گیا، آپؐ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔‘‘ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا۔ آپﷺ نے اس کو جواب دینے کے بعد فرمایا: ’’اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔‘‘ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا تو آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیے تیس نیکیاں ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)
سلام میں پہل کرنے والا اللہ سے بہت قریب ہوتا ہے۔ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ تکبر ختم ہوتا ہے اور یہ سلامتی اور امن کی دعا ہے۔
پیارے بچوں ہمارے نبیﷺ جب بھی بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے تھے، اسی طرح وہ بڑوں کو بھی سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا ” یقیناً لوگوں میں اللہ کے قریب وہ ہے جو ان میں سے سلام میں پہل کرے۔“ (سلسلہ الصحیحة 3382)
بچوں ! جانتے ہو جنت میں بھی بہترین کلام سلام ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورت واقعہ میں:
یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًا(25)
اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(26)
ترجمہ: ” اس میں نہ سُنیں گے کوئی بیکار بات نہ گنہگاری ہاں یہ کہنا ہوگا سلام سلام“
بچے ساری کہانی سن کر بولے، ”دادی جان! آج سے ہم بھی سلام میں پہل کریں گے ان شاءاللہ۔“ اس بار جب عنابیہ کی گڑیا مہمان بن کر عائزہ اور اذلان کے گھر گئی تو ”السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ“ زور دار آواز میں بولی اور اس کا جواب بھی کافی پرجوش طریقے سے دیا گیا ”وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ“ اور سب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔