یہ تین صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ یہ تو پورا فلسفہ ہے زندگی گزارنے کا، کسی نظام یا ادارے کو چلانے کا۔ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو ان قیمتی الفاظ میں کامیابی کا گر سمجھایا۔ اس فلسفے سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات پر کامل و پختہ یقین کے کے ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد و یک جہتی قائم رکھتے ہوئے ہر کام نظم وضبط وقت اور کرنے کاموں کی منصوبہ بندی کے ساتھ ٹیم بناتے ہوئے مکمل کرنا یعنی منظم انداز میں کام کام اور صرف کام یعنی انتھک محنت سے تمام فرائض و ذمہ داریوں کوادا کرنا ہے کیونکہ اسی میں قوموں کی اداروں کی نظام ہائے زندگی کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
قائدِ اعظم جیسے عظیم مخلص رہنما نے اپنی اور اپنے گھرانے کےلیے دولت نہیں سمیٹی بلکہ وہ تو اس ملک اور اپنی قوم کا مستقبل سنوارنا چاہتے تھے قائد اعظم نے قرآن کو پاکستان کا دستور قرار دیا تھا۔ قوم کو اتحاد نظم و ضبط پابندیء وقت اور انتھک محنت کا پیغام دیا تھا۔ زندگی نے مہلت نہ دی وہ تو اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن قائد کے جانے بعد مفاد پرست ذہنی غلام ٹولے نے ملک خداد کوجڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا سب سے پہلے قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کروادیا پھر حق کے لیے اٹھنے والی زبانیں بند کروادیں پابند سلاسل کردیا یا جلا وطن ہونے پر مجبور کردیا قائد کی بہن بزرگ مادر ملت فاطمہ جناح کو تک کو نہ چھوڑا انکی بھی قدر نہ کی ملک کو دو لخت کردیا۔ ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ۔
اس کی وجہ ہے کہ من حیث القوم ہم بحیثیت مجموعی قائد اعظم کے اس سنہرے پیغام کو عملی طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ زبان پر تو قائد کا نام ہے نوٹوں اور سرکاری اداروں میں قائد کی تصویر کی حد تک احترام ہے بلکہ ہزار روپے کے نئے نوٹ کا جو خاکہ شیئر ہورہا ہے وہ تو ملک دشمن اور اسلام دشمن علامات سے آراستہ ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے اپنی جیبیں بھرنے والے غلاموں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا آج ہم منتظر ہیں قائد اعظم جیسے جری محنتی اور مخلص رہنما کے جو شیخ احمد یاسین اسماعیل ہانیہ احمد مرسی غلام مرتضی سید علی گیلانی ( وہ بھی شہید ہی کہلائیں گے) جیسے شہداء کے کردار کا حامل ہو ۔ اسکے لیے ہم سب کو مل کر قائد کا پیغام مستقبل کے معماروں میں عام کرنا ہوگا۔ گیارہ ستمبر قائد کی برسی کا دن ہے اسی دن سے اس کام آغاز کردیں ۔ آپ تیار ہیں نا۔ چلیں پھر اس مشن پر لگ جائیں۔