زندگی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
زندہ قومیں اپنے مشاہیر کی یاد تازہ رکھتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ ان کی شخصیت اور تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کرتی ہیں۔ ان کے اچھے کاموں کا تذکرہ کرتی ہیں اور ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔بلاشبہ محمد علی جناح ایک ممتاز ، منفرد اور تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ آئیے ان کے ارشادات کی روشنی میں ان کے کردار کا جائزہ لیں۔
” اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقہ کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنا ہوگی۔ اگر آپ مل جل کر اس جذبے کے تحت کام کریں کہ ہر شخص خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو ، اس کا رنگ، نسل ، مذہب کچھ ہی ہو، اول و آخر اسی مملکت کا شہری یے ، اس کے حقوق و ذمہ داریاں مساوی و یکساں ہیں تو ہم بے حد ترقی کر جائیں گے۔” ( خطبہ صدارت ـ دستور ساز اسمبلی پاکستان )
پاکستان کی سرزمیں میں زبردست خزانے چھپے ہوئے ہیں مگر اس کو ایک ایسا ملک بنانے کے لئے، جو ایک مسلمان قوم کے رہنے سہنے کے قابل ہو ہمیں اپنی قوت اور محنت کے زبردست ذخیرے کا ایک ایک ذرہ صرف کرنا پڑے گا اور مجھے امید ہے تمام لوگ اس کی تعمیر میں دل و جان سے حصہ لیں گے۔” ( جمعتہ الوداع ـ 17 اگست 1947)
” اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں ۔ جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں اتنا ہی بڑا ارادہ اور اتنی ہی بڑی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے ۔ پاکستان حاصل کرنے کے تو جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں، پاکستان کی تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی ہی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی ۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آن پہنچا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت و فطانت اس بارِ عظیم کو آسانی سے برداشت کر لے گی ، اس بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے طے کرے گی۔” ( یوم عید – 18 اگست 1947)
” میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایمانداری، خلوص دل اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیئے۔” ( پیغام عید الفطر ـ 27 اگست 1918)
” ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اتنا ہی زیادہ پاکیزہ ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے ، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے ۔ ( پیغام عید الاضحی- 24 اکتوبر 1947 )
“اس بار عظیم (تعمیر پاکستان) کی شدت اور سنگینی سے گھبرانا نہیں چاہیئے ۔ تاریخ میں ایسی نئی اقوام کی کئی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے محض قوت ارادی اور بلند کرداری سے خود کو بنایا۔ آپ کا ضمیر فولادی قوتوں سے اٹھا ہے اور ہمت کے معاملے میں آپ دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ پھر آخر آپ دوسروں کی طرح کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے ؟ خاص طور پر اپنے آباؤ اجداد کی طرح کی کامیابی ۔ آپ کو اپنی ذات میں فقط مجاہدوں کی سی سیرت پیدا کرنے کی ضرورت – ہے – آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ حیرت انگیز طور پر بلند کردار ، بلند حوصلہ ، شجاع اور اولو العزم ہستیوں سے بھری پڑی ہے ۔ اپنی روایات کی رسی بھی مضبوطی سے تھام لیجئے اور اپنی تاریخ میں شان و شوکت کے ایک اور باب کا اضافہ کیجئے ” ( جلسۂ عام لاہور – 20 اکتوبر 1947)
“ایمان داری اور خلوص سے کام کیجئے۔ کام اور زیادہ کام ۔ حکومت پاکستان پر اعتماد کیجئیے اور اسکے وفادار رہئیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے ضمیر سے بڑی کوئی قوت روئے زمین پر نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب آپ خدا کے روبرو پیش ہوں تو آپ پورے اعتماد سے کہہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض انتہائی ایمان داری ، وفادری اور صمیمِ قلب سے انجام دیا ہے۔ ( افسران حکومت سے خطاب – سبی 14 فروری 1948)
” آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ہے ۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظر انداز کر کے آپ جو چاہیں کر گزریں ۔ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں ۔ اس وقت ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر تعمیری جذبہ پیدا کریں ۔ جنگ آزادی کے دنوں کی جنگ جوئی کی اب ضرورت نہیں رہی۔ آزادی حاصل کرنے کے لئے جنگ جویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل ” ( ڈھا کہ یونیورسٹی – 26 مارچ 1948)
میں نے قائد اعظم کے چند ارشادات نقل کئے ہیں۔ ان کی روشنی میں قائد کے کردار کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک تراشنا ، اور وہ بھی ایک نظریے کی بنیاد پر موجودہ دور میں ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کا ہر جزو بصیرت و فراست اور جرآت و استقامت کا مرقع ہے اور جسے تاریخ انسانی میں فقید المثال کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نہایت ہی معمولی سازو سامان کے ساتھ اپنے دشمنوں کے اقتصادی ، سیاسی اور تعلیمی اداروں کے خلاف نبرد آزمائی کی اور فاتح ٹھہرے۔ اس واقعہ نے قائد اعظم کو حیات ابدی بخش دی ۔ ایسے ہوتے ہیں لیڈر جو اپنے لئے زندہ باد کے نعرے نہیں لگواتے بلکہ ایک قابل فخر کردار کی وجہ سے زندہ جاوید ہو جاتے ہیں ۔ آج بھی اگر ہمارے حکمران بانیٔ پاکستان کے ارشادات کی روشنی میں اپنے کردار و عمل کو درست کر لیں تو پاکستان اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے ۔
نگہ بلند، سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے۔