قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے2 جنوری 1948 کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ کی ذات ہے اور جس کی تعمیر کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی ،نہ کسی شخص یا ادارے کی ۔قرآن کریم کے احکام ہی سیاست اور معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حد مقرر کر سکتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام اور اصولوں کی حکومت ہے۔

13 اپریل 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں بانی پاکستان نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ “ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اسلام نے جمہوریت کی راہ دکھائی ہے مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے اسلامی اصولوں پر عمل کرنے سے ہمارے ہر ایک کے ساتھ انصاف کر سکیں گے میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظم رض کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھینچ جائے۔ خدا میری اس آرزو کو پورا کرے”.

صرف یہی دو تین بار نہیں قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد کم و بیش ڈیڑھ سو بار مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں یہ بات دہرائی کہ پاکستان کا نظام حکومت  اسلامی اصولوں پر چلے گا اور یہی وہ بات تھی جس نے عوام الناس کو سب سے زیادہ متاثر اور متوجہ کیا ۔ یہی وہ بات تھی جو “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” کے نعرے میں ڈھل گئی اور مسلمانان ہند جو ق در جوق ،والہانہ انداز میں تحریک پاکستان میں شامل ہوتے چلے گئے ۔وہ نئے بننے والے ملک میں خلفائے راشدین جیسا پاکیزہ جمہوری اور فلاحی نظام دیکھنا چاہتے ۔

قائد اعظم نے قومی زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم اور رابطے کا ذریعہ ہے صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ ہے اردو۔ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ اردو کو پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے، یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے۔ قائد کے علاوہ دیگر لیڈر جو بانیان پاکستان میں شامل ہیں انہوں نے بھی اپنی تقریروں میں پاکستان کا مقصد اسلامی تہذیب کا تحفظ اور مسلم تہذیب کا بچاؤ قرار دیا اور ان کی مختلف تقریروں میں یہ واضح کیا گیا کہ پاکستان کو ہم اسلامی قوانین کے نفاذ  اور قرآن کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے بنا رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو تقریریں تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان سے پہلی کی گئیں ،کیا یہ ووٹ لینے کے لیے تھیں؟ یہ سوال بہت بنیادی ہے کہ اگر ہم قائدا اعظم کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ انہوں نے مذہب کا نام, قرآن کا نام ,سنت کا نام اور ریاست مدینہ کا نام سب سے پہلے استعمال کیا تو یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے تھا.  اگر قائد اعظم نے بھی ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا تو آپ قائد اعظم کے بارے میں کیا تاثر دے رہے ہیں. قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح میں یہ کہا کہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں اسلام کے اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں اور کہا کہ مغرب کے معاشی نظام نے دنیا کو لڑائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا قائد اعظم نے یہ کہا کہ پاکستان میں اپنے ماہرین معیشت سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق پاکستان میں معیشت کے نظام کو استوار کریں اور میں آپ کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرتا رہوں گا ۔ یہ کیا ہے؟ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی نہیں بعد کی بات ہے اور قائد اعظم کی وفات سے ایک مہینہ پہلے کی بات ہے۔ بحیثیت گورنر جنرل آف پاکستان سٹیٹ بینک کے افتتاح کی تقریب کے دوران کی بات ہے۔ ان آراء کو دیکھنے کے بعد ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ معیشت اور معاشی استحصال کے بارے میں قائد اعظم کے خیالات کیسے ہیں ؟یہ وہی شخص ہے جس نے ایک تاجر کے گھر میں جنم لیا اور جس کی سیاسی تربیت کا اغاز لندن جیسے سرمایہ داری کے گھر سے ہوا اور جس آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوا وہ سرمایہ داروں کے مفادات کی نگہبان تھی اور وہ جس آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر بنا۔

ان کی تقریر کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے  “پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی، میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا بے حس اور خود غرض بنا دیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا. عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کر چکا ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں. لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں. ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جا رہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے”۔

قائد اعظم محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ یہ سوال ہمارے ہاں بار بار اٹھایا اور دہرایا جاتا رہا ہے. لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے آغاز سے ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام کیسا ہونا چاہیے؟ وہ اس کو مکمل طور پر اسلامی نظام میں ڈھالنا چاہتے تھے .لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے بہت جلد قائد اعظم کو کھو دیا اور ان کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ دوڑ رہی انہوں نے قائد اعظم کے نظریات کو پیش نظر رکھنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک کا  صلاحیت طبقہ خصوصا نوجوان طبقہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے اور پاکستان سے باہر بھاگنے کی کوششوں میں مصروف ہے، اس وقت بھی اگر ہم قائد کی فکر کو سامنے رکھیں اور اس فکر کے مطابق اپنے ملک کو ڈھالیں۔ اپنے ملک کے اندر ایسے لوگوں کو حکمرانی دیں جو قائد کی فکر کو لے کر چلنے والے ہیں۔ ان کی فکر کے مطابق ملک کو ڈھالنے والے ہیں ۔ اگر ایسا ہو جائےتو وہ دن دور حکومت کہ یہ ملک واقعی جنت نظیر ملک بن جائے اور اس کے اندر ہر چیز کے مواقع موجود ہوں۔

خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس ملک میں ہر چیز مہیا کی ہے، چاروں موسم، پہاڑ، دریا ،کھیت ،میدان، معدنیات ہر چیز کی فراوانی ہے ۔ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ ملک کے اندر اقتدار کی بھاگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں آ جائے جو ملک کے ساتھ محب وطن ہوں ۔جو اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھنے کی بجائے ملک کے مفادات کا خیال رکھیں،اسلام کے مفادات کا خیال رکھیں۔ جب ایسا ہوگا تو پاکستان نہ صرف ایک خوشحال اسلامی فلاحی مملکت بن جائے گا بلکہ یہ اقوام عالم میں مسلم امہ کا قائد بنے گا۔ آئیے آج کے دن ہم قائد کی روح کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم مل کے اس ملک کو تباہی کے دہانے سے بچائیں گے۔ جس طرح انہوں نے ہندوؤں کے گرداب میں پھنسنے سے ہمیں بچایا اسی طرح اب ہم اپنے ملک کی کشتی کو جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، دوبارہ کامیابی کی طرف گامزن کریں گے۔