انوکھی خواہش

آج جمعہ کا مبارک دن تھا۔ تختہ سیاہ پر آج کی حدیث لکھنے کی باری احمد کی تھی۔ احمد نے حدیث تحریر کی:-  ”تم میں سے اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“ (صحیح بخاری: حدیث نمبر 13 باب الایمان)

احمد اپنا کام مکمل کر کے واپس آ کر اپنے دوست عبدالہادی کے ساتھ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ استاد صاحب نے حدیث کا مفہوم سمجھانا شروع کیا۔ سب بچے متوجہ ہو کر سننے لگے۔

جمعہ کے دن آدھی چھٹی کے باعث عبدالہادی اور احمد 12 بجے گھر آ جاتے تھے۔ ان کا گھر اسکول سے نزدیک ہی ایک آبادی میں تھا، لہذا دونوں دوست پیدل ہی اسکول جایا کرتے تھے۔ اسکول سے گھر کے راستے میں ایک بڑی سڑک بھی آتی تھی جس پر گاڑیوں اور بسوں اور موٹر سائیکلوں کا کافی رش ہوتا تھا۔وہ دونوں سڑک کنارے درختوں کی چھاؤں میں اٹھکیلیاں کرتے اور باتیں کرتے اپنا سفر طے کرتے تھے۔

دونوں دوستوں کو جدید اور تیز رفتار گاڑیوں کا بہت شوق تھا۔ وہ راستے میں جاتے ہوئے ہر نئے ماڈل کی گاڑی کو ”یہ میری گاڑی“ ”یہ میری“ کہہ کر کھیل کھیلا کرتے تھے۔ احمد نے عبدالہادی کو بتایا کہ اس نے اپنی پسندیدہ کار کے لیے پچھلی عید الفطر سے پیسے جمع شروع کرنے کر دیے تھے۔ ریموٹ کنٹرول کار کی قیمت 3 ہزار تھی۔

عبدالہادی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ احمد کی بات سن کر اس نے کہا کہ جب تم بھی یہ کار لو گے تو میں تمہارے گھر کار سے کھیلنے آیا کروں گا۔ یہی باتیں کرتے ہوئے دونوں کا گھر آ گیا اور ایک دوسرے کو خدا خافظ کہہ کر دونوں نے اپنے گھر کی راہ لی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں احمد کی خالہ بیرون ملک سے اپنے بچوں کے ہمراہ آئی تھیں۔ ایک روز سب سیر و تفریح کی غرض سے باہر گئے اور واپسی پر سب بچوں نے اپنے من پسند کھانے کھائے اور خریداری کی۔ شاپنگ مال میں سب اپنے اپنے پسندیدہ ریکس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ احمد اور اس کا خالہ زاد بھائی علی بچوں کے کھلونوں والے حصے میں آ گئے۔ احمد اپنے خالہ زاد کو بتا رہا تھا کہ میں اس من پسند کھلونے کے لیے پیسے جمع کر رہا ہوں۔ یہ بات خالہ نے سن لی اور اپنے پیارے بھانجے کو سرپرائز کے طور پر وہ کار خرید کر تحفہ کر دی۔

 اگلے روز جب اسے تحفہ دیا گیا احمد خوشی سے نہال ہو گیا اور فورا اپنی کار عبدالہادی کو دکھانے کے لیے لے گیا۔ عبدالہادی کی آنکھوں میں ایک حسرت سی اُمڈ آئی۔ جب اسے پتہ چلا کہ اسے یہ کار تحفے میں ملی ہے۔ احمد کو لگا کہ عبدالہادی نے اس کے اس تحفے پر کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا، اور ٹھیک سے کھیلا بھی نہیں۔ وہاں سے احمد جلدی ہی گھر لوٹ آیا اور خود گاڑی سے خوب کھیلا۔

عبدالہادی کی والدہ اپنے بیٹے کی افسردگی کو بھانپتے ہوئے بولیں! ”بیٹا احمد آپ کے بھائی جیسا ہے اور آپ کو اس کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے تھا“۔ وہ جس خوشی اور محبت سے آپ کو اپنا تحفہ دکھانے لایا تھا آپ نے جواباً اس کے ساتھ ویسی خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ آپ کے اس رویے سے اس کو کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ میرے پیارے بیٹے جب کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھتے ہیں تو ”ماشاءاللہ“ اور ”لا حول ولا قوۃ الا باللہ“ کہتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہے اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنے مومن بھائی کی خوشی میں خوش ہوتا ہے۔ اپنی والدہ کے پیار سے سمجھانے پر عبدالہادی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے دل میں عہد کیا کہ وہ صبح احمد کے گھر جا کر اس کے کھلونے سے خوب سارا کھیلے گا۔

دوسری جانب احمد رات کو جب سویا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ اسکول میں گرمیوں کی تعطیلات کا آخری دن ہے اور وہ تختہ سیاہ پر چاک سے حدیث لکھ رہا ہے۔ حدیث کے الفاظ اور استاد صاحب کا سمجھایا ہوا مفہوم اس کے کانوں میں گونجنے لگا عبدالہادی کا اداس چہرہ اس کے ارد گرد گھوم رہا تھا اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔

صبح ہوتے ہی احمد نے اپنے گلک میں سے پیسے نکال کر امّی کو دیے اور کہا امّی مجھے ان پیسوں سے میرے تحفے سے ملتی ہوئی گاڑی لا دیں۔ امّی نے پوچھا احمد تم نے تو یہ پیسے اپنی کار کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ اب تم اس سے کچھ اور چیز خرید لینا، لیکن اس نے اصرار کیا کہ اس کو وہی ریموٹ کنٹرول گاڑی ہی چاہیے۔ یہ بھی بتایا کہ وہ یہ گاڑی عبدالہادی کو تحفہ کرنا چاہتا ہے۔

والدہ کے اصرار پر احمد نے ان کو ساری روداد سنائی اور اپنے پاس اس تحفے کو دیکھنے کے بعد عبدالہادی کے چہرے پر افسردگی کہ آثار کا بھی بتایا۔

احمد نے بتایا کہ ان کے استاد نے حدیث کے مفہوم میں جو باتیں سمجھائی تھی مجھے وہ سب یاد ہیں ہادی میرا بہت اچھا دوست ہے اور ”ربّ الرحمن“ نے میرے لیے اتنا اچھا سبب کر دیا ہے تو کیا میں اپنے اللہ کی خوشی کی خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتا۔ استاد نے سمجھایا تھا کہ ”بہترین مومن وہ ہے جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے۔“ عبدالہادی کو بھی گاڑیوں کا بہت شوق ہے۔ احمد کی والدہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی۔ انہوں نے فخر سے اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور ان کی آنکھیں خوشی سے جھلملا گئیں۔ انہوں نے احمد سے وعدہ کیا کہ وہ آج ہی شاپنگ مال سے وہ کار خرید کر عبدالہادی کو تحفہ دیں گی۔ احمد نے بھی خوشی کا نعرہ لگایا اور اپنی گاڑی سے کھیلنے میں مگن ہو گیا۔