فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ
ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ ہے۔ سورت الماعون)
’’ویل‘‘ تباہی، ہلاکت یا بربادی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’’ویل‘‘ کا مادہ ’’و۔ی-ل‘‘ سے نکلا ہے۔ لغت میں اس کے معنی دردناک عذاب، کرب، بد انجام، ان سب کے لیے یہ کلمہ استعمال ہوتا ہے۔
میں نے جب یہ آیت پڑھی تو میری روح کانپ کر رہ گئی، کہ کیا نماز پڑھنے والے پر بھی ویل کی جا رہی ہے؟ ایسے کون سے لوگ ہیں؟ جو نماز، روزہ کے پابند بھی ہیں مگر پھر بھی قرآن میں ان کو مخاطب کر کے انہیں تباہی اور بربادی کی وعید سنائی جا رہی ہے۔
ہماری نمازیں تبدیلی کا باعث کیوں نہیں بنتی؟ کیا ہم نماز ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتے یا نماز محض رسم بن کر رہ گئی ہے؟ اور اس کی روح پرواز کر گئی ہے۔
آئیے ہم اب قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں صلاۃ کے معنی کیا ہیں۔ لفظ صلوۃ ص۔ل۔ی/ و سے نکلا ہے، اصطلاحی معنی قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ”حدود اللہ کے اندر رہنا اور کتاب اللہ سے جمے رہنا“۔
الصَّلا ۔۔۔”صلی الفرس تصلیہ“ اس وقت کہتے ہیں ”جب گھوڑ دوڑ میں دوسرے نمبر کا گھوڑا پہلے نمبر کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے اس طرح دوڑ رہا ہو کہ پچھلے کی کنوتیاں پہلے کی سیرین سے مل رہی ہوں۔“
اس گھوڑے کو جو آگے جا رہا ہو ”سابق“ کہتے ہیں اور دوسرے نمبر والے کو ”المصلی“ کہتے ہیں۔ اس سے مصلی کے معنی آگے کے ساتھ ملے ہوئے کے پیچھے آنا کے ہیں۔ یعنی اگلے کے پیچھے اس طرح چلنا کہ ان دونوں میں فاصلہ نہ ہو لیکن پیچھے چلنے والا آگے جانے والے سے سبقت نہ لے جائے بلکہ وابستگی سے اتباع کرے۔
صلاۃ کے معنی بھی احکام الہی سے وابستگی ہیں۔ جو معنی ہمیں قرآن وسنت سے پتہ چلتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالی کے احکامات اور انبیاء کرام کی سنت کے پیچھے پیچھے چلنا۔“
قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے! جہنمیوں سے جب پوچھا جائے گا کہ تم لوگوں کے یہاں پہ آنے کی وجہ کیا ہے؟ تو وہ کہیں گے ’’لم نك من المصلین‘‘ ”ہم مصلین میں سے نہیں تھے“۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم انبیاء کے پیچھے پیچھے چلنے والوں میں سے نہیں تھے۔
کیا ہم نے اس شخص کی حالت پر کبھی غور کیا جو زبان سے تو اسلام کا اقرار کرتا ہے لیکن عملاً دین کی تکذیب کرتا ہے۔ یعنی اس کا طرز عمل اس امر کی دلیل ہے کہ اگر دینداری یہی ہے جس کا مظاہرہ اس کے اعمال سے ہوتا ہے تو پھر دین کا دعوی جھوٹا ہے۔
دین کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جو شخص بے یاروں مددگار رہ جائے، اسے محسوس تک نہ ہونے پائے کہ وہ تنہا ہے اور بے کس ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس کی ضرورت رک جائے تو اسے فورا پورا کر دیا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں دین داروں کی یہ حالت ہے کہ جو شخص بے یار و مددگار رہ جائے اسے دھکے دیتا ہے اور محتاجوں کی مدد نہ خود کرتا ہے اور نہ دوسرے کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کام تو ایسے کرتے ہیں لیکن اپنے آپ کو دیندار ظاہر کرنے کے لیے نمازیں بہت پڑھتے ہیں۔ اس قسم کے نمازی ہیں جن کی نمازیں ان کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ معاشرے پستی اور تنزلی کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نمازیں پڑھ کر اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کہ وہ بڑے متقی اور پرہیزگار ہیں۔ انہیں اس کا پتہ ہی نہیں کہ صلاۃ کا مقصد کیا ہے۔
اس کا مقصد ایک ایسے معاشرہ کا قیام ہے۔ جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کی اتباع کریں، اور عالمگیر انسانیت کو سامان نشونما باہم پہنچایا جائے۔ یہ اس کی غرض و غایت سے غافل رہتے ہیں اور اس کے محسوس ارکان یعنی قیام، رکوع، سجود وغیرہ کی ادائیگی کو ہی دین سمجھ لیتے ہیں۔ ان رسمی عبادات کی ادائیگی کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم فریضہ خداوندی سے سبکدوش ہو گئے۔ ان کی اس خود فریبی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسری طرف رزق کے ان سر چشموں پر جسے بہتے پانی کی طرح ہر ایک کی زیست کے لیے کھلا رہنا چاہیے بند لگا دیتے ہیں۔ ان پر قبضہ جما لیتے ہیں اسی طرح ضرورت مندوں کو سامان نشونما سے محروم کر دیتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو اس پیمانے پر پرکھ کر دیکھیں کیا آیا ہم بھی ان میں سے تو نہیں؟ کہ جن کی نماز محض رکوع، سجدہ اور قیام ہی پر مبنی ہیں۔وہ روح سے بالکل خالی تو نہیں ہیں؟ کیا ہم اپنے رزق میں سے جو سرا سر عطائی ہے دوسروں کا حصہ رکھتے ہیں۔ کیا ضرورت پڑنے پر ہم اپنے مسلمان بہن، بھائیوں کی ضروریات کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔
ماہ ربیع الاوّل کی آمد ہے، آئیے ہم سب مل کر خود سے تجدید عہد کریں کہ اپنے آقا الصلوة السلام کی سنت کے رنگ میں اسقدر رنگ جائیں روز محشر بہترین امتیوں کی فہرست میں کھڑے ہوئے ہو اور ایک صدا یہ بھی آئے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے بیگانہ میرے لیے تھا
اللہ تعالی ہمیں حقیقی معنوں میں صلاۃ قائم کرنے والا بنا دے، اور ہماری ادا کی جانے والی صلاۃ معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنے۔
آمین یارب العالمین