مشہور مقولہ ہے:موت العالِم موت العالَم ! ایک عالم ربانی کی موت فقط اس کی ذات کا فقدان نہیں بلکہ ایک پورے عالَم کی موت ہے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ! اللہ تعالیٰ علم کو یوں نہیں اٹھائیں گے کہ سینوں سے علم قبض کرلیا جائے بلکہ علماء کے اُٹھ جانے سے علم اُٹھ جائے گا۔ موجودہ دور میں ایسے علمائے ربانیین بکثرت دنیا سے پردہ فرمارہے ہیں۔
ان ہی علماء میں دورِ حاضر کے نامور محقق، منقولات و معقولات کے امام، زہد و تقویٰ کے پیکر استاذِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انور بدخشانی رحمہ اللہ بھی تھے، جو چند روز قبل ایام زندگی مکمل کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کے علمی و عملی کمالات کا احاطہ ایک مضمون میں کرنا تودرکنار شاید ایک ضخیم کتاب بھی ان کی گوناگوں صفات کے بیان کے لیے ناکافی ہو۔ سرِدست ان کی حیات مبارکہ کا ایک اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے ذکر کرنا مقصود ہے اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا مجلہ بینات اس نامور محقق کے شایان شان خاص نمبر کی اشاعت کرکے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو امت مسلمہ کے سامنے لائے گا جو یقیناً ہمارے لیے علمی و عملی استفادے کے اعتبار سے ایک گوہرنایاب ہوگا۔
مولانا محمد انور بدخشانی 1932ءمیں بدخشاں افغانستان میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ؒ کے شاگرد مولانامحمد شریف ؒسے حاصل کی جو مولانا بدخشانی ؒکے رشتے میں چچا بھی تھے ، ابتدائی علوم و فنون کی تکمیل بھی اپنے دور کے نامور اہل علم سے افغانستان کے صوبہ تخار میں مکمل کی ۔ یہ زمانہ انتہائی عسرت کا زمانہ تھا ، ہمارے استاذمولانا قاری محمد تسلیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے مولانا بدخشانیؒ سے خود سنا وہ فرماتےتھے کہ مجھے افغانستان میں بارہا طویل طویل سفر برف پر ننگے پاؤں کرنے کی نوبت آئی ، اور جوانی کے دور میں اس کا احساس نہیں ہواالبتہ اب عمر کے اس مرحلے اس ننگے پاؤں سفر کی وجہ سے پاؤں میں شدید تکلیف برداشت کرنی پڑرہی ہے۔
مولانا بدخشانیؒ نے اسی محنت پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے تقریباً1965ء میں پاکستان کا رُخ کیا، یہاں انجمن تعلیم القرآن کوہاٹ ، جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک اور دارالعلوم اسلامیہ سیدوشریف میں علمی پیاس بجھاتے رہے ، اس دور کے کبار اہل علم میں سے مولانا شیخ عبدالغفار، مفتی محمد فرید، شیخ فضل الہی ، شیخ خان بہادر مارتونگ ،شیخ لطافت الرحمن سواتی رحمہم اللہ آپ کے معروف اساتذہ میں سے ہیں ۔ بعد ازاں ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا رخ کیا اور اپنے وقت کے اساطین اہل علم محدث العصر حضرت مولانا یوسف بنوری، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی ، مولانا مصباح اللہ شاہ، مولانا ادریس میرٹھی اور مولانا بدیع الزمان ، مولانا فضل محمد سواتی رحمہم اللہ سے حدیث کا علم حاصل کیااور تفسیر میں آپ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ 1971ء میں درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد دو سال تک جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں سنن نسائی و ابن ماجہ سمیت فقہ ، اصول فقہ ، منطلق، ادب عربی کی کتب کی تدریس کی اور 1974ء میں محدث العصر حضرت بنوریؒ کے ادارے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے منسلک ہوگئے ، اور تادم وفات تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر علم و فن میں کامل مہارت نصیب فرمائی تھی ، کتابی دنیا سے ایسا تعلق تھا جو بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے ، اور ہر علم و فن کی کتب کا بغور و ناقدانہ مطالعہ کیا ہوا، حافظہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا عطا فرمایا تھا کہ سالہا سال قبل کا مطالعہ بھی کتب کی عبارات ، مفہوم اور مطلب سمیت ازبر ہوتاتھا۔ کسی بھی علم و فن پر گفتگو کے لیے حضرت رحمہ اللہ کو مطالعہ کرنے کی خاص حاجت نہیں ہوتی تھی ،بلکہ بارہا دیکھا گیا کہ کسی محفل یا مجلس میں کسی عنوان پر گفتگو کرنی ہوتی تو استاذمحترم فی البدیہ اس عنوان پر ایسی گفتگو فرماتے گویا کہ چند لمحات قبل ان تمام کتب کا بغور مطالعہ کرکے تشریف لائے ہوں ۔ نصف صدی سے زائد علوم نبوت کا درس دیتے رہے ، اور یہ سلسلہ زندگی کے آخری ایام تک کسی نہ کسی درجے میں جاری رہا۔
حضرت بنوری ؒ کے ادارے میں ابتدائی کتب سے لے کر صحیح بخاری تک کا درس دیا، یہاں تک کہ شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ، سالہا سال سے صحیح بخاری جلد ثانی آپ کے سپرد رہی ، بندہ کو استاذ محترم سے2007-2008ء میں مشکوۃ المصابیح جلد اول اور صحیح بخاری جلد ثانی پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، نیز الحمدللہ بندہ کو یہ بھی سعادت حاصل رہی کہ بندہ کا اور برادرنسبتی قاری محمد ارشد کانکاح بھی حضرت ؒ نے ہی پڑھایا۔ علمی دنیا میں آپ کا فیض عرب و عجم تک پہنچا،شاید ہی دنیا کا کوئی ایساملک ہو جہاں آپ کے تلامذہ یا فیض یافتہ افراد موجود نہ ہوں ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو وافر حصہ نصیب فرمایا ، چالیس سے زائد کتب جو متعلقہ علوم و فنون میں خالص علمی و تحقیقی اور مستند کتب شمار ہوتی ہیں ، عربی و فارسی زبان میں تصنیف فرمائی ہیں۔جن میں درس نظامی میں شامل کتب کی تسہیل بطور خاص شامل ہے ۔
آپ کی کتب کو عرب و عجم علماء کے نزدیک انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کے فارسی(دری)زبان میں ترجمہ کرنے کا شرف نصیب فرمایا۔ سعودی حکومت کے قرآن پرنٹنگ پریس بنام مجمع ملک فہد مدینہ منورہ نے بڑے غور و خوض کے بعد اس ترجمے کا انتخاب کرکے بڑی تعداد میں فارسی خطوں کے باشندوں کے لیے اسے شائع کیا اور افغانستان کی سابقہ حکومت نے بھی افغان وزارت اوقاف کے تحت اس ترجمہ کو شائع کرکے گاؤں گاؤں ، قریہ قریہ پہنچایا۔بلاشبہ یہ اعزاز خالص عطیہ خداوندی ہے ، اس سے بڑھ کر سعادت ، مقبولیت خداوندی اور صدقہ جاریہ کی صورت کیا ہوسکتی ہے ! ساتھ ہی آپ چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کریم کی تفسیر بھی مکمل کرچکے تھے ۔ علمی دنیا میں تو وہ اپنے مثال آپ تھے ، دوسری جانب دنیاوی حسب و نسب کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی اعزازات سے نوازا۔اولاً انہیں محدث العصر حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کا داماد بننے کا شرف حاصل ہوا، اورپہلی اہلیہ کے وصال کے بعد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی نواسی اور مولانا نوراحمد صاحبؒ کی صاحبزادی آپ کے عقد نکاح میں آئیں۔یوں علم وفضل کے دو علمی خانوادوں سے آپ کو صہری نسبت بھی حاصل رہی ۔
آپ ساری زندگی درس و تدریس کے ساتھ منسلک رہے ، بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا درس دیتے رہے ۔ آپ انتہائی سادہ طبیعت و سادہ مزاج تھے ،اس مادی دور میں بھی شہرت و ناموری سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھتے تھے ، تکلف و تعیش کا آپ کے ہاں تصور ہی کوئی نہ تھا۔ نصف صدی سے زائد علوم نبوت کا درس دے کر علمی دنیا میں ایک آفتاب بن کر چھائے رہے ، بدخشاں سے آنے والے محمد انور اب شیخ الحدیث ،جامع المعقول و المنقول مولانا محمد انور بن چکے تھے ، اور یہ آفتاب اپنے خانوادے کو بھی ایں خانہ ہمہ آفتاب است کا مصداق بناکر دنیا سے کوچ فرماگئے۔
آپ نے اپنے سوگواران میں تین صاحبزادے ،چھ صاحبزادیاں اور ایک اہلیہ (جن سے تیسرا عقد نکاح ہوا تھا)چھوڑی ہے۔آپ کے دو صاحبزادے مولانا مفتی محمد انس انور اور مولانا محمد عمر انور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تدریس و افتاء سے منسلک ہیں ۔گزشتہ چند سالوں سے آپ علیل تھے ، علالت کے باوجود الحمدللہ درس و تدریس اور حدیث رسول کی تعلیم کا سلسلہ کچھ تعطل کے ساتھ جاری رہتا تھا، یہاں تک کہ آخری چند ایام میں بیماری بڑھ گئی اور ہسپتال میں داخل ہوئے اور مورخہ 13 اگست بروزمنگل رات تقریباً دو بجے علم و فضل ، علوم عقلیہ و نقلیہ کے آفتاب و ماہتاب ، زہد و تقوی کے مجسم پیکر استاذ محترم اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ ظہر کی نماز کے بعد علماءو طلبہ کے ایک جم غفیر نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی اقتدا میں آپ کے جنازے کی نماز ادا کی اور جامعہ دارالعلوم کورنگی کراچی کے قبرستان میں آپ کو سپردخاک کیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ