عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے جس طرح اللہ رب العزت کو وحدہ اور لاشریک ماننا اسی طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اللہ جل جلالہ کا اخری نبی ماننا بھی ضروری ہے قران مجید کی سو سے زائد ایات بینات اور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی 210 سے زیادہ احادیث مبارکہ صحابہ کرام کے اس پر اجماع اور امت مسلمہ کے اج تک اس پر اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کے آخری نبی ہیں شریعت کی رو سے منکرین ختم نبوت کافر مرتد اور اسلام سے خارج ہیں اسود عنسی وہ بدبخت ملعون ہے جس نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات ظاہری میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اس کی جادوگری کی وجہ سے کافی لوگ اس سے متاثر تھے اس نے ایک صحابی رسول حضرت زوئیب بن کلب رضی اللہ تعالی عنہ کو گرفتار کر کے اس شرط پر رہائی کی پیشکش کی کہ اسے نبی تسلیم کیا جائے جس کے جواب میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا میرے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس پر اس نے تیش میں آ کر آپ کو آگ میں ڈال دیا قدرت کی شان دیکھیے کہ اس آگ نے آپ کو نہ جلایا اور آپ محفوظ رہے آخر کار کچھ ہی دنوں بعد حضرت فیروز ریلمی نے اسے واصل جہنم کیا جس کی بشارت آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے صحابہ کرام کو دی جس کے بعد یمن کے تمام بڑے قبائل توبہ تائب ہو کر دین اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں سب سے پہلے منکرین ختم نبوت کے خلاف علم جہاد بلند کیا جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں 13 ہزار صحابہ پر مشتمل لشکر تشکیل دیا گیا جبکہ مقابلے کے لیے مسلمہ کذاب کے 40 افراد موجود تھے، صحابہ کرام نے جوش ایمانی کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے 21 ہزار منکرین ختم نبوت کو واصل جہنم کیا مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا جبکہ تقریبا 12 ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے جام شہادت نوش کیا، یوں اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔
برصغیر پر قابض برطانوی سامراج انگریزوں نے ہر طرح کے ظلم و ستم خوف و لالچ کے باوجود مسلمانوں میں جذبہ آزادی کہ جدوجہد کو اور شوق شہادت کو دیکھا تو اسے کچلنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اور مسلمانوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کے لیے فرقہ واریت کا فروغ دیا شان رسالت صحابہ اہل بیت عقائد اسلامیہ پر ضرب کاری لگانے کے لیے نام نہاد مفکروں علمائے سو کی جماعت تیار کی انہیں مالی طور پر سپورٹ کے ساتھ ساتھ ان کی گستاخانہ تحریروں پر مشتمل کتب کی بھی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا دوسری طرف اسلام پر کاری ضرب لگانے کے لیے جعلی نبوت کی سازش تیار کی گئی جس کے لیے قادیان گورداسپور مشرقی پنجاب کے دین فروش شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو تیار کیا گیا جس نے 1884 میں مجدد صاحب کرامت امام زمانہ مہدی دوراں مسیح موعود ہونے کے دعوے کیے 1901 میں نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔
جس پر علامہ غلام دستگیر قصوری رحمۃ اللہ علیہ نے کفر کا فتوی دیا جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ اعلی حضرت امام احمد رضا علامہ حامد رضا خان صاحب نے قلمی جہاد کیا جبکہ مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے فتنہ قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا۔ سات فروری کو بہاولپور کی عدالت نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ کیا جس میں شیخ الاسلام علامہ غلام محمد گھوٹوی نے اہم کردار ادا کیا 1953 میں پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ کی سرپرستی میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی مزموم سرگرمیوں کو روکنے کے لیے علامہ سید ابو الحسنات قادری کی قیادت میں تحریک ختم نبوت کا اغاز ہوا جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ کو برطرف کرنے قادیانیوں کو اعلی عہدوں سے ہٹانے اور قادیانی کے گڑھ ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے اور وہاں پر مہاجرین کو آباد کرنے کا مطالبہ کیا گیا،جس پر تحریک کے قائدین کو اور دیگر علماء کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر جھوٹے مقدمات قائم کر کے پھانسی کی سزا سنائی گئی جس کے خلاف پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ملک گیر احتجاج میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے 10 ہزار سے زائد مسلمان اپنی ہی ملٹری اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا
22 مئی 1974 کو نشتر کالج ملتان کے طلبہ کو دوران سفر قادیانیوں نے اپنا لیٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی جسے روکنے پر جھگڑا ہوا واپسی پر ربوہ کے مقام پر مرزا طاہر کی سرپرستی میں منصوبہ بندی کے تحت انجمن خدام احمدیہ کے غنڈوں نے نہتے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنا کر لہو لہان کر دیا جس کی خبر ہر پر مسلمان سراپہ احتجاج بنا ہوا تھا مگر حکومت اور انتظامیہ قادیانیوں کو نکیل ڈالنے کے بجائے احتجاج کرنے والوں کو ہی تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں ڈالنے میں مصروف تھی۔
قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں شرپسندیوں اور فتنہ پروریوں کو روکنے کے لیے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں قانونی اور آئینی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا گیا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں منکرین ختم نبوت مرزائی احمدی لاہوری اور قادیانیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دیئے جانے کی قرارداد 37 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط سے جمع کرائی، اس طرح قرار داد کے اصل محرک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ہی تھے۔
قرار داد جمع کرائے جانے پر قادیانیت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو گیا مرزا ناصر نے وضاحت کا موقع دینے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کرتے ہوئے مرزا ناصر قادیانی اور صدر الدین لاہوری کو موقع دیا گیا مگر وہ قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کے موقف، دیے گئے دلائل اور پیش کیے گئے شواہد کے سامنے اپنا منہ لے کر رہ گئےجس کی بھرپور تائید اٹارنی جنرل یحیی بختیار نے کی اس وقت وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ تھے۔
آخر کار7ستمبر1974 کوپاکستان کی قومی اسمبلی سے قادیانیوں اور لاہوریوں کو آئینی طور پر کافر اور اقلیت قرار دیا گیا اس موقع پر ایوان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ یہ 90 سالہ مسئلہ تھا جو وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جا رہا تھا احمدیوں کے بارے میں آج کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہے جو مسلمانوں کی خواہش کا آئینہ دار ہے جس کا کریڈٹ پوری قوم کو جاتا ہے رابطہ عالم اسلامی کے تحت مکے میں منعقد ہونے والی اسلامی تنظیموں کے کانفرنس نے بھی پاکستان کی قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کو سراہا اور اس کی تائید کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے اور ان کا مکمل بائیکاٹ اور ان کی تحریفات سے عوام کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ کے اس فیصلے کے بعد 50 ہزار سے زائد قادیانیوں نے اسلام قبول کیا اگر اس فیصلے کی موثر طور پر تشہیر ہو جاتی تو باقی قادیانی بھی مسلمان ہو جاتے، مگر آج قادیانیوں کو کافر قرار دیے جانے کے 50 سال گزرجانے کے باوجود ان کی مزموم سرگرمیاں جاری و ساری ہیں مختلف این جی اوز کی شکل میں پسماندہ علاقوں میں فلاحی کاموں کی آڑ میں مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے اور ان میں کفریہ عقائد پھیلانے میں مصروف ہیں۔
لہٰذا ہمیں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، اسے روکنے کے لیے از خود میدان عمل میں آنا ہوگا کیونکہ ایوان اقتدار اور انتظامیہ میں چھپے ہوئے لادینی عناصر ان کے معاون اور مددگار اور مخبر بنے ہوئے ہیں ہمیں آپس میں اتفاق اتحاد کی فضا برقرار رکھنا ہوگی کیونکہ ہمارا انتشار ہی ان کی کامیابی کا زینہ ہے۔ ہر پلیٹ فارم پر ختم نبوت کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی عقیدہ ختم نبوت کی آگاہی سے متعلق کتب رسائل بروشرز پمفلیٹ کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کرنا ہوگا قادیانیوں سے میل جول لین دین رشتے ناطے سے گریز کرنا ہوگا، نام نہاد اسکالرز موٹی ویٹرز پر نظر رکھنا ہوگی جو زندگی میں تبدیلی کی باتیں کرتے کرتے عقائد و نظریات ہی تبدیل کرنے کا درس دیتے ہیں جن کے باعث بندہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا گویا شک و شبہات کہ ایسے بیج بوئے جاتے ہیں جس سے انسان لادینیت اور الحاد کے کڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔
اس کی روک تھام کے لیے ہمیں اپنے علماء کرام کی کتب کا مطالعہ اور ان سے رابطے میں رہنا ہوگا ختم نبوت سے متعلق آیات بینات احادیث مبارکہ علمائے حق کے اقوال کو نمایاں جگہ پر آویزاں کرنا ہوگا تاکہ عام افراد کو بھی آگاہی حاصل ہو کہ عقیدہ ختم نبوت کیا ہے ایمان کی سلامتی کے لیے اس کی کس قدر اہمیت اور ضرورت ہے۔
قارئین :علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی قرار داد پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کے رواں سال 2024 کو تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی گولڈن جوبلی کے طور پر منایا جا رہا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں جدوجہد کرنے والے اکابرین کو خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے کہ جنہوں نے ہمیں فتنہ قادیانیت کے دام فریب سے بچایا اور ہمارے ایمان کی سلامتی کا سبب بنے۔