وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔۔(سورۃ النجم آیۃ 39)۔۔۔انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔
اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کیں ہیں، ان کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم ترین درجے پر پہنچا دیتا ہے جبکہ ہمت و حوصلہ سے گریز کرنے والا انسان نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے آس پاس موجود اپنوں کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ مخملی آرام دہ بستروں پر صرف خواب دیکھتے رہنے سے منزلیں نہیں ملا کرتیں۔ یہ گوہر تو ان کے ہاتھ آتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور صبح دم ان کی تعبیر کے لیے کمر ہمت کس لیتے ہیں۔
اللہ کے پیغمبروں نے اپنے رب کا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لیے دن رات تگ و دو کی۔ ’’دَعَوْتُ لَیْلاً وَّ نَھَاراً‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ نوح علیہ السلام نے کیسے اپنی قوم کے لیے دن رات ایک کیے۔ اللہ کے ان مقرب بندوں نے صرف دعوت و تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ گزر بسر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کمایا بھی۔ کائنات کی عظیم ترین ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائیں اور دین لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمت و حوصلہ سے کام لیتے رہے۔
اپنوں کی بد ترین مخالفت بھی ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ پیدا کرسکی۔ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم طائف میں لہولہان ہونے کے بعد حوصلہ ہار جاتے، کوشش ترک کر دیتے تو یثرب کبھی بھی مدینۃ النبی نہ بنتا۔ گھروں کے دروازے بند کر کے دشمن سے بچنے کی کوشش کرتے تو ڈر اور خوف سے اپنے ہی دل دہلتے رہتے۔ ایک ہزار فرشتے بھی تبھی نازل کیے گئے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ساری ہمتیں جمع کر کے بدر میں جاپہنچے۔ میدان احد میں قویٰ جواب دے گئے ہوتے تو کعبہ 360 بتوں سے کیسے پاک ہو پاتا اور دنیا ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ سے کیسے آشنا ہوتی۔ طارق بن زیاد نے کشتیاں نہ جلائی ہوتیں تو سر زمین اندلس کفر کے اندھیروں سے کیسے نکلتی؟
ابراہم لنکن، امریکا کا ایک معروف صدر، غریب کسان کا بیٹا تھا جبکہ انگریزی ادب کا تھامس کار لائیل، ایک لوہار کے گھر پیدا ہوا۔ سائنس کی دنیا کو روشن کرنے والا ایڈیسن، اخبار فروش تھا اور نپولین جیسا نامور حکمران جس کا نام تاریخ میں آج تک زندہ ہے، ابتدا میں عام سپاہی تھا۔ یہ دنیا عظیم ترین لوگوں کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کمزور ترین لوگوں نے مغلوب ہونے کی بجائے غالب آ کر دکھایا۔ حالات کا ڈٹ کر بہادری سے مقابلہ کیا، ثابت کیا حالات انسان کو نہیں انسان حالات کو بدلتا ہے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا
ہمت، محنت،استقلال، اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلم کار اس مقام خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا دیکھتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سےکرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے لیے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتا سوائے ان کاموں کے جو الله تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہیں۔
اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا نکال سکتا ہے۔ تاریکیوں کا سفر ترک کر کے شہرت، دولت اور عظمت کی بلندیاں حاصل کر سکتا ہے۔ مضبوط قوت ارادی اور عزم و ہمت انسان کی کامیابی کی دلیل ہیں۔ یاد رکھیے! جب ساحل پر قدم ڈگمگا جائیں تو پھر طوفان سے لڑنا ہی جیت کہلاتا ہے۔ ایسے ہی عظیم لوگوں کے لیے سمندر میں بھی راستے نکل آتے ہیں۔
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا