بہادر ہوا باز

گرمیوں کی چھٹیاں علی اور آمنہ اپنی نانی جان کے گھر اسلام آباد گزارتے تھے۔ یہاں وہ اپنے ماموں کے بچوں کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ ماموں ان کو مختلف تفریحات کے لئے باہر لے جاتے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ وہ ان کو مختلف معلومات بذریعہ تفریح ہی دے دیں۔

اتوار کے دن ماموں نے بچوں کے لئے کچھ تحفے خریدے، انہوں نے بچوں کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہوئے خریداری کی۔ آمنہ کو گڑیا سے کھیلنا پسند تھا تو اس کے لئے گڑیا کا گھر لائے، جس میں اس نے اپنی گڑیا رکھ لی۔ علی کے لئے ایک بڑے سائز کا جہاز لائے کیونکہ انہوں نے علی کے پاس جہازوں کی کولیکشن دیکھی تھی۔ علی تو جہاز دیکھ کر خوشی سے نہال ہو گیا اور اسے ذوق و شوق سے اڑا رہا تھا۔

ماموں نے علی سے پوچھا، ”آپ کو جہاز بہت پسند آیا ہے مجھے لگتا ہے آپ تو بڑے ہو کر پائلٹ بنو گے۔“ جس پر علی نے جواب دیا، ”جی ان شاءاللہ میں پائلٹ بنوں گا۔“ نانی جان تمام باتیں سن رہیں تھیں ان کو ایک بہادر ہوا باز کی کہانی یاد آ گئی، بچوں کو انہوں نے اپنے اردگرد بٹھا لیا اور بولیں، بچو آج میں آپ کو ایک بہادر ہوا باز کی کہانی سناؤں، آپ سب سنو گے؟ جس پر تمام بچے یک زبان ہو کر بولے، جی سنیں گے۔

نانی جان نے کہانی سنانی شروع کی، ”ایک چھوٹا سا بچہ تھا وہ بہت ذہین تھا، اس کو جہاز بہت پسند تھے اور وہ ان سے خوب کھیلتا تھا۔ وہ بچہ اپنی جیب خرچ جمع کر کے جہاز کے مختلف نمونے خریدتا تھا، کوئی بھی اس کو تحفے میں جہاز کا کھلونا دیتا تو وہ بہت خوشی سے قبول کرتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے مختلف جہازوں کی معلومات اکھٹی کر رکھیں تھیں، مثال کے طور پر وہ جہازوں کے نام، ان کی رفتار اور ان کی قسموں کے بارے میں بہت فہم رکھتا تھا۔

اس بچے کو بہادری کے کارنامے بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ 6 ستمبر 1965ء کی جنگ میں ایم ایم عالم نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے تھے اور عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس سے وہ بہت متاثر ہوا تھا، چھوٹی سی عمر میں اس نے سوچ لیا کہ وہ بھی اقبال کے شاہینوں میں شامل ہو گا اور پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرے گا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس بچے نے خوب دل لگا کر پڑھائی کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے او لیول مکمل کیا۔ جامعہ کراچی سے ملٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری کی تعلیم حاصل کی اسکے بعد پاک فضائیہ میں اپلائی کردیا، جس میں اس کو منتخب کر لیا گیا اس کو کوہاٹ اور پھر رسالپور کی فضائیہ اکیڈمی میں تربیت دی گئی۔

15 اگست1971ء کو اس کے خوابوں کی تکمیل ہو گئی اور وہ پائلٹ افسر بن گیا۔ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی بالآخر اللّٰہ نےاس کو اسکی محنت کا پھل دے دیا تھا ۔

20 اگست1971 کو اس کی دوسری تنہا پرواز تھی، جس کے لئے اس نے تمام آلات چیک کئے، گراؤنڈ اسٹاف نے اوکے کا سگنل دیا اور وہ پرواز کے لئے تیار تھا کہ اچانک اس کا ایک انسٹرکٹر جہاز میں زبردستی گھس گیا اور جہاز کی کمان اس سے چھین لی۔ پائلٹ یہ جان چکا تھا کہ انسٹرکٹر کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ وہ جہاز کا رخ بھارت کی طرف کر چکا تھا۔ بہادر ہوا باز نے یہ خبر کنٹرول روم کو بھی دے دی تھی کہ اس کا طیارہ اغوا ہو چکا ہے۔ پائلٹ اور انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش جاری رہی بالآخر کوئی حل نظر نہ آنے پر پائلٹ نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور ٹھٹہ کے قریب طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ عظیم پائلٹ نے اپنی جان دے دی پر اپنے وطن کے ساتھ غداری نہیں کی اور انسٹرکٹر کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔“

بچے بہت غور سے ساری کہانی سن رہے تھے انھوں نے پوچھا، ”اگر طیارہ بھارت چلا جاتا تو کیا ہوتا؟“ جس پر نانی جان نے بتایا، ” پاکستان کے بہت سے راز فاش ہو جاتے اور پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہوتا، اس لئے پائلٹ نے اپنی جان کی قربانی دے دی۔“ علی نے پوچھا، ” اس پائلٹ کا نام کیا تھا؟ جس نے اتنی بہادری اور حوصلے کا کام کیا۔“ نانی نے اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بتایا، ” راشد منہاس جو کہ پاک فضائیہ کے سب سے کم عمر پائلٹ ہیں، جنھیں پاکستان کا سب سے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا ہے۔“

آمنہ نے پوچھا، ” راشد منہاس شہید کے بارے میں ماموں جان آپ بھی کچھ بتائیں، “جس پر ماموں جان نے بتایا،”راشد منہاس شہید کو ٹیپو سلطان کا یہ قول بہت پسند تھا جس کو وہ اکثر دھراتے بھی تھے” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“

بچو! راشد منہاس کو ڈائری لکھنے کا بھی بہت شوق تھا اور اسکی ڈائری میں وطن سے محبت اور اس کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کا ذکر ملتا ہے۔“

علی اپنے دل میں عہد کر چکا تھا کہ وہ بھی راشد منہاس شہید کی طرح بہادر اور جرآت مند پائلٹ بنے گا۔ رات کو جب وہ اپنی ڈائری لکھ رہا تھا تو اس نے ڈائری میں نانی جان کی سنائی ہوئی راشد منہاس شہید کی کہانی لکھی اور علامہ اقبال کی نظم کا یہ شعر لکھ کر ڈائری بند کر دی۔

؎ تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں