اٹھو اہلِ قدس کیلئے

آخرت کوئی تھریلر یا ایکشن مووی کا سین نہیں اور نہ ہی جزا وسزا کوئی افسانوی داستان ہے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دیا ہے۔ قیامت برحق ہے اور ہمیں اعمال کا جواب دینا ہے تو اس ایمان و یقین کا اثر ہماری زندگیوں سے کیوں نہیں جھلکتا؟ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے راستے سے منحرف کیوں ہیں؟ سوالات تو بہت اٹھیں گے مگر وہ کیا حالاتِ ہیں جو ایسے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں، آئیے ! آج کی بات کرتے ہیں۔

آج یعنی “فلسطین”

جب ہم یعنی مسلمان، پاکستانی روز قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہوں گے، جب حساب کتاب کا وقت آن پہنچے گا، جب “مسئلہ فلسطین” کے اوراق کھنگالے جائیں گے، جب بات ہو گی “سر زمین قدس کے لوگوں کی” یہ وہ لوگ جن کے ایمان کا تذکرہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا، جب وہ تکلیف میں تھے، ظلم و بربریت کا شکار تھے، اندھا دھند قتل کیے جا رہے تھے، امت مسلمہ کو مدد کیلئے پکار رہے تھے، تو امت نے ان کی پکار پر کان کیوں بند کر لیے، انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا؟

جب وہ ہر ملک سے پہلے پاکستان کو پکارتے تھے۔ جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو سب سے زیادہ یہ عزیز جان لوگ خوش ہوئے اور ان صیہونیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے تھے، اب یہ قوم کہاں ہے جب وہ مر رہے ہیں؟ خواب غفلت کی ایسی کونسی نیند سوئے ہیں جو ان کی تکلیف سے بھری آوازیں سن کر بھی ختم نہیں ہو رہی۔ وہ سر کٹے شہداء، وہ بھوک و افلاس سے مرتے بچے اور نوجوان، وہ جسم کے چیتھڑے اڑ جانے کے مناظر، وہ سروں پر گھر کی پوری چھت کا آن گڑنا، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار شہر، بچوں ماؤں کی آہ و بکا، باپ جیسے مضبوط تناور درخت کا بھی مرجھا جانا، کیا یہ سب امت مسلمہ کی بےحسی پر ضرب لگنے کیلئے کافی نہیں۔

کیا لذت زبان کے چٹخارے اتنے ضروری ہیں کہ ان مصنوعات سے بھی بائیکاٹ نہ ہو سکا جن کے متعلق واضح ہے کہ وہ صیہونیوں کو باقاعدہ منافع پہنچا رہی ہیں۔۔۔ جب معلوم ہے کہ ایسے ہم ان کے گناہوں میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں، پھر ایک دفعہ بھی ان کو فائدہ پہنچانا کیوں نہیں چھوڑا؟

جب معلوم ہے کہ تھوڑی سی بھی کوشش ہمیں روز محشر فلسطینیوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دے گی تو پھر یہ کوشش کیوں نہیں کی؟ جب پتا ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھانا جہاد ہے… ظلم و جبر کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر بات کہنا جہاد ہے،،، اور ہتھیار کے ذریعے جہاد کرنا تو سب سے افضل ہے۔ تلوار سے جہاد تو ایک طرف ہم تو اپنی زبان کا بھی استعمال نہیں کر رہے اور رہا دل میں برا جاننا تو یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے اور یقیناً ہم میں سے اکثریت اس سے بھی محروم ہیں۔

کیا ہمارا شمار ان مسلمانوں میں نہیں جو  میدان کربلا میں یہ سوچ کر خاموش تماشائی بنے رہے کہ ہم کون سا  حضرت امام حسین علیہ السلام  کے ساتھ کیے گئے ظلم میں شریک ہیں؟ وہ تو کچھ مسلمان تھے ہم تو نہیں۔ کہیں ہم اس بستی  کے رہنے والے مسلمانوں کی طرح عذاب کے مستحق تو نہیں جنہیں بنی اسرائیل کی بستی کے ساتھ ہی الٹا دیا گیا تھا اور وہ ان کے ساتھ اس عذاب میں شامل تھے۔ کیوں؟ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے دین کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں تو وہ خاموش تھے حالانکہ ان میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش کرتے۔

تو یقیناً وہ لوگ جو آج ہمت، طاقت اور شعور رکھنے کے باوجود بھی ان کی چیخ و پکار پر کان بند کیے بیٹھے ہیں، کچھ کر جانے کی استطاعت رکھنے کے باوجود بھی اس دنیا میں مگن ہیں تو یقیناً یقیناً یہ لوگ میدان کربلا میں خاموش تماشائی اور اس بستی میں رہنے والے عذاب کے مستحق مسلمانوں سے کم نہیں۔

آج ہم میں سے کون ہے جو سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا پھر بھی کوئی یہ کہے کہ حالاتِ حاضرہ سے نا واقف ہے تو وہ اپنے ضمیر میں جھانکے اور خود کو لعنت ملامت کرے۔۔ یہ سوچ کر کہ کسی کا قتل، پاکستانی کرکٹرز کی ہار جیت، ان کی شادی، سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز، کسی کے، پوپ سنگر کا آرمی میں جانا، کسی کا خودکشی کرنا، کوئی ہالی ووڈ بولی ووڈ مووی یا کوئی ناول ہو تو ہم سب کو معلوم ہو گا۔ لیکن اکثریت کو خبر ہی نہیں کہ امت کے دل پر کس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے؟ پتا ہی نہیں کہ کون سی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور کچھ تو جانتے بوجھتے بھی مزے لے رہے ہیں۔ اگلے دن تو دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر خوب بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے ان دنیاوی معاملات پر۔ لیکن افسوس ہم نے فلسطین، اپنے قبلہ اوّل کو اتنا مقام و مرتبہ دیا ہی نہیں کہ اس کے متعلق بات کرتے، مشورے کرتے کہ بحیثیت ایک مسلمان ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

افسوس اس ملک اور امت مسلمہ کے سیاستدان اس قدر بے دین، غیرت سے عاری، پیسے کے پجاری، دنیاوی دولت کے بیوپاری، انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے اور خوف خدا سے عاری ہیں جن کے لیے دنیا اور وقتی مال و متاع اپنے بہن بھائیوں سے کئی گنا زیادہ عزیز تر ہے۔۔ جو حق کیلئے آواز اٹھانے کو اپنی بربادی سمجتے اور گونگے بہرے بنے پھر رہے ہیں، ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔۔ تو ایسے بے دین لوگ یہ بات جان لیں کہ دنیا کی دولت انھیں آخرت میں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ اس دن کوئی جواز، کوئی طاقت کام نہ آئے گی۔۔

’’اور بےشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنات اور انسان پیدا کئے ہیں ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ،یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘ ۔(الاعراف:179)

اگر اب بھی ضمیر بے آواز ہے تو اللہ تعالیٰ سے اپنی ہدایت کی دعا مانگیں۔ 300 دن کم نہیں۔۔ لوگوں کی زندگیوں کا ایک اہم حصہ یقیناً اتنے وقت میں گزر جاتا ہے. کوئی اب بھی بیٹھا رہا تو ان ظالموں کے ساتھ برابر کا شریک ہے، وہ روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر نہ اٹھا سکے گا، رب تعالیٰ کی نظر کرم سے محروم رہ جائے گا، ان کے گریبان فلسطینی بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں ہوں گیں۔

’’وَمَا هَٰذِهِ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَآ إِلَّا لَهۡوٞ وَلَعِبٞۚ وَإِنَّ ٱلدَّارَ ٱلۡأٓخِرَةَ لَهِيَ ٱلۡحَيَوَانُۚ لَوۡ كَانُواْ يَعۡلَمُونَ‘‘۔۔۔۔۔”اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے” (العنکبوت:64)

مت بھولیں انہیں۔ غزہ کربناک حالات سے گزر رہا ہے، تباہ ہو رہا ہے، جل رہا ہے۔ یہ سوچ ہی سوہانِ روح ہے کہ غزہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ مغربی کنارے پر حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر دشمنان اسلام کے گھیرے تنگ ہو رہے ہیں۔ میری زبان وہ روح کو چھلنی کر دینے والے مناظر بیان کرنے اور قلم اسے لکھنے سے انکاری ہے۔ یہ قلب امت مسلمہ کی بےحسی پر خون کے آنسو روتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر امت کے حالات بیان کروں، ہر شخص کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بتاؤں کہ ایک مسلمان کے کیا فرائض ہیں؟ جب ظلم عروج پر ہو، امت مظلوم ہو اور تمہیں پکارے تو پھر جہاد فرض عین ہے لیکن بےبسی اس قدر ہے کہ ہر بار خود پر رو دیتی ہوں ۔

’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یُوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مُقرّر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا‘‘ (النساء:75)

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو گمراہیوں کے گہرے گڑھے سے نکال دے۔ آمین۔

الھم اصلح احوال المسلمین فی فلسطین۔