اگر پاکستان نہ ہوتا تو؟

یہ سوال جیسے ہی میری نظروں کے سامنے آیا اور زبان نے اس کی ادائیگی کی تو دل کانپ سا گیا، ذہن ماؤف ہو گیا، سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

آج سب کچھ ایسے ہوتا؟

نہیں!!

آج کچھ بھی ایسا نہ ہوتا۔ ہم آج ہندوستان کے باسی ہوتے اور سب سے بڑی نعمت جو ہمیں پاکستان میں حاصل ہے، “آزادی”، اس سے محروم ہوتے۔ آزاد ہونے کے باوجود بھی قید میں ہوتے۔

“آزادی” تو وہ نعمت ہے جس کا اگر اصل مطلب ہم جاننا چاہتے ہیں تو ہندوستان میں موجود ان بےبس مسلمانوں سے جانیں جو ایک آزاد ریاست سے محروم ہیں، جنہیں زندگی بھی ان کے دین کے مطابق گزارنے کی اجازت نہیں۔ ان فلسطین کے باشندوں، اپنے بہن بھائیوں سے پوچھیں جو اپنی ہی سر زمین میں مصائب و مظالم برداشت کر رہے ہیں، ان برما کے مسلمانوں سے پوچھیں جنہیں انھی کے ملک سے کشتی پر سوار کر کے بےدخل کر دیا گیا تھا، ان بنگلہ دیشی مسلمانوں سے پوچھیں جنہیں ان کے گھروں سے نکال کر ایک کھلے میدان کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، ان کشمیریوں سے پوچھیں جو خون کے آنسو رو رہے ہیں۔

تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں مسلمانوں کو ان ہی کے ملک سے دربدر کر دیا گیا اور کہیں انھیں اقلیت ہونے کی بنا پر دبا دیا گیا۔۔۔۔

• اگر آج پاکستان نہ ہوتا تو پھر ہم بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوتے۔

• ہم بھی ان یونیورسٹیز، کالجز اور تعلیمی اداروں کا حصہ ہوتے جہاں ہمیں ہمارا حجاب اتارنے پر مجبور کر دیا جاتا۔

• داڑھی اور باپردہ ہو کر جس راہ کے مسافر بنتے، وہاں ہم پر دہشتگرد( terrorist) کا ٹیگ چپکا دیا جاتا۔

• ہمیں ہمارے دین و مذہب کی بنا پر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے اور ہم ہمیشہ ترقی کرنے سے رہ جاتے۔

• اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا آج میں انسان تصور کی جاتی؟؟ کیا مجھے وہ بنیادی شہری حقوق دیے جاتے جو مجھے میرے آزاد ملک پاکستان میں حاصل ہیں۔

• جیسے آج اسرائیلی جانور، مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع کر دیتے ہیں، رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں ان پر تشدد شدید تر کر دیتے ہیں، جو اب غزہ میں روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہمیں ہماری مسجدوں میں، عبادت گاہوں میں سجدہ ریز ہونے دیتے؟ کیا مؤذن کو اتنی اجازت دی جاتی کہ وہ ایک بت پرست ملک میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کی صدائیں بلند کرتے؟

• اگر پاکستان نہ ہوتا تو شاید آج ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی کوئی حد نہ ہوتی! مسلمان یعنی ہم اگر اکثریت میں بھی ہوتے تو ہماری نسلیں تباہ کر دی جاتیں۔

• اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہندوستان میں ہونے والے ہر حملے کا سہرا مسلمانوں کے سر پر سجا دیا جاتا۔

• اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا میں، آپ، ہم سب اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے، کیا ہم حق کے لیے آواز اٹھا پاتے؟

نہیں ! ہم جان کو عزیز رکھتے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہونا تھا کہ کوئی قائد ہماری مدد کو نہیں آئے گا؟ ہم اگر ہندوستان چھوڑیں گے تو برما کے مسلمانوں کی طرح دربدر ہو کر یا تو کسی سمندر کی نظر ہو جاتے یا کسی ویرانے میں بے یار و مددگار پڑے رہتے۔

• انڈیا میں آج آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو سرعام ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں،انہیں سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، آٹھ سالہ مسلمان بچی کی اجتماعی بے حرمتی کی جاتی ہے اور بی جے پی کے رہنما ریپ کرنے والوں کے حق میں ریلی نکالتے ہیں۔ یہ وہ انڈیا ہے جہاں کا وزیراعظم ایسے تمام پر تشدد واقعات پر یوں آنکھیں موند لیتا ہے جیسے اسے علم ہی نہیں کہ اُس کی پارٹی کے غنڈے کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ اگر آج پاکستان نہ ہوتا تو ہم بھی اس سب کا حصہ ہوتے۔

’’میں پاکستانی ہوں‘‘ مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے

• یہاں مجھے ہندو سنگھٹنوں کا خوف نہیں۔

• یہاں مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ یہاں میں دین کے نام پر، گائے کی قربانی کرنے پر قتل کر دی جاؤں گی۔

یہ ملک وہ تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قائد اعظم کے ذریعے عطا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے ہرکوئی واقف ہے، وہ اپنی شعوری زندگی کے پہلے دور میں مسلم ہندواتحاد کے علمبردار رہے تھے۔ اس نکتہ پر وطنیت کا نظریہ رکھنے والے بھی اختلاف نہیں کرسکتے۔

’’تحریک خلافت‘‘ کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، جگہ جگہ (نعوذ باللہ) اہانت رسولﷺ کی مہم چلائی جانے لگی۔اس سے اندازہ کیجئے کہ ہندوستان میں وہ گروہ کس ذہنیت کا تھا جس کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کی ہمیں تلقین کی جاتی تھی اور اب بھی کی جاتی ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جنھوں نے قائد اعظم کے دل ودماغ کو تبدیل کردیا۔

یہ ملک ہمیں، آج کی نسل کو پکی پکائی کھیر کی طرح ملا ہے اس لیے آج بھی ہم میں موجود ایک طبقہ پاکستان کے وجود پر انگلی اٹھاتا ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کی ذہنیت پر۔

یہ ملک خون کی ندیاں بہا کر، لاکھوں ماؤں، بہنوں کی عصمتیں قربان کرکے ، بزرگوں کی بزرگیاں ، بیٹوں کی جوانیاں لٹا کر حاصل ہوا ہے۔ امیر کبیر لوگ اپنے گھر، مال و دولت، جائیداد، حویلیاں سب کچھ چھوڑ کر اپنے آزاد ملک میں کٹیا نما گھروں میں بھی بخوشی رہے۔۔۔ یہ ملک سب کچھ لُٹا کر حاصل ہوا ہے ۔۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ آگست کی تپتی دھوپ ان کے لہو سے رنگین ہوئی ہے۔۔۔ یہ ملک محض ہندوستان سے ہجرت کر کے نہیں بنا۔ اس کیلئے قائد اعظم کی بے تحاشا کوشش اور مسلمانوں کے خون کی داستان رقم ہے۔۔۔

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

آج کے کچھ نام نہاد دانشور ان سب سے بے خبر اپنے بانی پر باتیں چھانٹتے ہیں، اور برے الفاظ استعمال کرتے ہیں، اور کچھ بے خبر تو ہندوستان سے علیحدگی پر اپنے “عظیم” خیالات کا اظہار کرتے ہیں، میرے نزدیک ایسے لوگ عقل سے پیدل ہیں جو آزادی کی قدر نہیں کرتے۔

یہ ملک اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ ہمارا بنیادی فرض یہاں شریعت کے مطابق اسلامی نظام کو رائج کرنا ہے۔ یہ ہمارے قائد کی امانت ہے۔ اس میں خیانت کرنا ہم پر جائز نہیں۔ پاکستان کی قدر کریں۔ ہم 77 سالوں سے آزاد ہیں لیکن ابھی بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ خود کو دین کے قریب کر لیں۔۔ اس ملک میں رہنے کا حق ادا کریں

حق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کریں اور باطل کو مٹا دیں

’’جہاد‘‘ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں

مجاہدین کی صف میں شامل ہو جائیں

اس ملک کو *”دارلاسلام”* بنا دیں۔

قائد اعظم نے فرمایا ! مجھ سے اکثر پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہے۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ پاکستان کا طرز حکومت اج سے 1300 سال قبل قران مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قران مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔

مجھے یہ سوچنا ہی نہیں چاہیئے کہ اگر پاکستان نہ ہوتا!! جب  ’’اقبال‘‘  تھے تصور دینے کیلئے ،  ’’قائد‘‘  تھے لڑنے کیلئے ،  ’’جوہر‘‘  تھے نام دینے کیلئے۔۔ تو پاکستان کی تخلیق کیسے نہ ہوتی۔

پاکستان ہے تو کیوں ہے!

ذرا سوچئے،،،،،