تکمیلِ پاکستان

بنگلہ دیش میں حالیہ طلبہ انقلاب نے پاکستان کے نوجوانوں کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا ہے۔ وہ اپنے آپ کا تقابل بنگلہ دیشی نوجوانوں کے ساتھ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسا  کیوں نہیں ہوتا ؟ لیکن یہ موازنہ کرنے سے پہلے ہمیں اپنے معاشرتی حالات، ذہنی رجحانات اور نسلوں کے درمیان موجود فرق پر غور کرنا ہوگا۔

یہ سچ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی تعمیر میں کچھ غلطیاں کی ہیں، لیکن آج ہم جس مقام پر ہیں، وہ انہی کی محنت کا نتیجہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ نسل اپنے بزرگوں سے دور ہوتی جارہی ہے اور ان کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ حالانکہ، ہمارے پاس ان سے سیکھنے کے بہت سے مواقع ہیں۔ اقبال کے اس قول کو آج کے نوجوان بڑے شوق سے دہراتے ہیں کہ “جوانوں کو پیروں کا استاد کر دے”، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے پہلے اقبال نے یہ کہا تھا کہ “خرد کو غلامی سے آزاد کر”۔ یہ مصرعہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے کیونکہ ہماری ذہنیت آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کا مقصد بھی وہی ہے جو ایک غلام قوم کا ہوتا ہے، یعنی کیریئر بنانا، دولت کمانا، اور ایک مادی زندگی گزارنا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کو آزادی تو مل گئی، لیکن پاکستان کی تکمیل ابھی باقی ہے۔

تکمیل پاکستان اس وقت ہوگی جب یہاں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوگا، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی جدوجہد قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر مسلمانوں نے کی تھی۔ آج ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر موجود تبدیلی کی صلاحیت کو پہچاننا ہوگا اور اس کو قومی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ غم وہ ہے جو انسان کو تبدیل کر کے رکھ دے۔ آج ہماری نسل کی کوششیں جس طرف لگی ہوئی ہیں وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہماری زندگی کا غم کیا ہے۔

ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے سے پہلے اس بات کا تخمینہ لگانا ہوگا کہ ہمارا اصل غم کیا ہونا چاہیے تاکہ ہماری صلاحیتوں کا رخ اسی طرف مڑ جا ئے۔ ہمیں ایک ایسی نسل بننا ہوگا جو انسانوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نہ کہ صرف اپنے کیریئر اور دنیاوی زندگی تک محدود رہے۔ ہمیں اپنی زندگی کا غم اور مقصد یہ بنانا ہوگا کہ پاکستان میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور ہم ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم کریں۔پاکستان کے نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کے استعمال میں مگن ہے۔ لیکن یہ استعمال اکثر اوقات مثبت نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا، جو علم کے فروغ اور سماجی تبدیلی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے۔

ہمارے ہاں زیادہ تر تفریح، وقتی تسکین، یا پھر مالی فائدے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو بات انہیں ناگوار گزرتی ہے، وہ اس کا غصہ سوشل میڈیا پر نکال دیتے ہیں یا میمز کی صورت میں اس کا مذاق اڑا دیتے ہیں۔ ان کے پاس ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے، لیکن اس کو وہ قومی یا معاشرتی بہتری کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ بنگلہ دیشی نوجوانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب قوم کے نوجوان متحد ہوجائیں اور اپنے اصل غم کا تعین کر لیں تو وہ کسی بھی انقلاب کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو بھی اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

ہمیں اپنے وسائل، خصوصاً سوشل میڈیا، کو صحیح معنوں میں استعمال کرتے ہوئے قوم کی تعمیر نو میں حصہ لینا ہوگا۔اگر ہم اپنی توانائیوں کو مثبت راہوں میں لگائیں اور اپنی زندگیوں کا مقصد بلند رکھیں، تو کوئی شک نہیں کہ ہم بھی ایک عظیم انقلاب کے بانی بن سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری قوم کی تقدیر ہمارے ہاتھوں میں ہے، اور اگر ہم نے صحیح قدم اٹھایا، تو پاکستان کی تکمیل کا خواب جلد ہی حقیقت بن سکتا ہے۔افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔